غالب اکیڈمی میں ڈاکٹر ماجددیوبندی کی کتاب ”میری کاوشیں“ کے رسمِ اجرا کا منظر۔
دہلی کی معروف ادبی اورثقافتی تنظیم ”میزان“ کے زیر اہتمام غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین میں معروف شاعراورنثرنگارڈاکٹرماجدؔ دیوبندی کی نثرکی تیسری کتاب ”میری کاوشیں“ کی رسمِ اجرا کے موقع پرملی، ادبی اوراہم سیاسی شخصیات کے ہاتھوں کتاب کی رونمائی کی گئی۔ صدارت پدم شری پروفیسراخترالواسع نے کی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سابق مرکزی وزیرِ خارجہ اورمعروف سیاسی رہنما اوروکیل سلمان خورشید، سابق رکنِ پارلیمنٹ اورکانگریس کے ترجمان میم افضل، مسلم پولٹکل کونسل کے صدرڈاکٹرتسلیم رحمانی، صدر جمہوریہ ہند کے سابق اوایس ڈی ایس ایم خان، ادبی تنظیم ”تسمیہ“ کے صدرڈاکٹرسید فاروق، انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری ڈاکٹراطہرفاروقی،اردوڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے صدرڈاکٹرسیداحمد خان، انجمن ساداتِ رضویہ، امروہہ کے جنرل سکریٹری سید اویس رضوی اورپھلودا(میرٹھ) کے چیئرمین سید عیسیٰ نے شرکت کی اوراپنے خیالات سے نوازا۔
میزان کے صدرڈاکٹر سید بلال احمد نے مہمانوں کی خدمت میں گلدستے پیش کرکے ان کا استقبال کیا۔ پہلے حصے کی نظامت حبیب الرحمان رسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی جبکہ ادیبہ ماجد کی نعت پاک سے پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ آغاز میں نوجوان صحافی ڈاکٹرنثاراحمد خان نے ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کے حوالے سیرحاصل گفتگو کی اوران کی صحافت، شاعری اورنثرپرتفصیل سے مقالہ پیش کیا اورہندی اردو میں شائع 10 کتابوں کے حوالے سے تفصیلی تعارف پیش کیا۔
ڈاکٹر ماجد خود داری اور ایمانداری کی پہچان: پروفیسر اخترالواسع
پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ ماجدؔ دیوبندی تنہا ایسے شاعراورنثرنگارہیں، جوبریلویوں میں بھی بے حد پسند کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ماجد جہاں جہاں رہے، اپنی خودداری اورایمانداری کی پہچان کے ساتھ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ شاعری میں علامہ اقبال کی فکرکے نمائندے کے طورپر انہوں نے پوری دنیا سے خود کومنوایا ہے، لیکن نثرنگاری میں بھی وہ کسی سے کم نہیں، جس کی مثال آج ان کی تیسری نثر کی کتاب ”میری کاوشیں“ کی اشاعت ہے، جس کا آج اجرا ہو رہا ہے۔
ماجد دیوبندی نہ صرف شاعری بلکہ نثر لکھنے میں بھی ماہر ہیں: سلمان خورشید
سابق مرکزی وزیراورمعروف وکیل سلمان خورشید نے ماجد دیوبندی کے حوالے سے گفتگوکی۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد مرحوم خورشید عالم خان کے زمانے سے ان کو سن رہا ہوں، جب وہ اسی تنظیم ”میزان“ کی طرف سے منعقد جامعہ میں 25 سال قبل ایک مشاعرے میں صدارت کرنے آئے تھے۔ سلمان خورشید نے کہا کہ اپنے خودداری اورحوصلوں کی تحریروں سے ماجدؔ دیوبندی نے عوام کو چونکایا ہے اورآج وہ نہ صرف شاعری بلکہ اپنی صحافت، کالم نگاری اورنثرلکھنے میں ماہرنظرآتے ہیں، جس کی مثال ان کی تازہ تصنیف ہے ”میری کاوشیں“ ہے۔ انہوں نے جذباتی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مسائل ہرشخص کے ساتھ آتے ہیں جو کچھ کام کرتا ہے، اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ انسان کو اس کا کام زندہ رکھتا ہے۔ سلمان خورشید نے کہا کہ ہرمشاعرے میں جہاں میں جاتا ہوں ماجد صاحب کو ڈھونڈتا ہوں کہ ان کی شرکت مشاعرے کا وقار ہوا کرتی ہے۔ انہوں نے نئی نسل کو اپنی تحریروں اور شاعری سے نیا حوصلہ بخشا ہے۔
ماجد دیوبندی ایک باوقار شخصیت کا نام: ایس ایم خان
صدر جمہوریہ ہند کے سابق اوایس ڈی ایس ایم خان نے ایک انگریزی کتاب کا ذکرکیا کہ اس میں ماؔجد دیوبندی کی اردو شاعری کے حوالے سے انگریزی میں یونیورسٹی کے بہت سے موضوعات پڑھائے جاتے ہیں، جس سے ماجد دیوبندی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی نسل کے لیے ماجدؔ دیوبندی ایک با وقار شخصیت کا نام ہے۔
ماجد دیوبندی کی خوب ہوئی تعریف
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے اپنی تقریر میں ماجدؔ دیوبندی سے اپنے گزشتہ 20 برسوں کے مراسم اوران کے ساتھ مل کربہت سے ادبی کام کرنے کے حوالے سے کہا کہ ان میں جنون کی حد تک کام کرنے کا جذبہ ہے، جو ان کو کامیاب کرتا ہے۔ ڈاکٹر سید فارووق نے ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کو ان کی نئی کتاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اورماجد دیوبندی کا تعلق پچھلے 30 سالوں سے ہے اور وہ انہیں اپنا عزیزترین سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”میزان“ کے لئے پہلے دن سے وہ ان کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔ ماجد دیوبندی کا ایک شعر پڑھ کر انہوں نے کہا کہ حوصلوں سے انسان بڑا بنتا ہے اور ماجد دیوبندی نے کبھی پیچھے مڑکرنہیں دیکھا اورآج وہ ملک کے اہم ترین چند ایک سینئرشعراء میں شمارکئے جاتے ہیں، جس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
انکساری، سنجیدگی اور تہذیب کے علمبردار ہیں ماجد دیوبندی: میم افضل
میم افضل نے تفصیلی اظہارخیال میں ماجدؔ دیوبندی کی شاعری، صحافت اور نثرپرگفتگو کی اورانہیں خراج تحسین پیش کیا کہ ان کی یہ دسویں اورنثرکی تیسری کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر دعائیہ لہجے میں کہا کہ ماجد دیوبندی کو میں پچھلے تیس سال سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ آج ملک کے نامور شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں، لیکن کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ اتنے بڑے ہیں۔ انکساری، سنجیدگی اور اپنے بڑوں کی عزت کرنے کے مزاج نے ان کو اوربڑا بنا دیا ہے جس میں ان کے ماں باپ کی دعائیں اور تربیت کا عمل دخل ہے۔میم افضل نے مزید کہا کہ وہ خود اوراخترالواسع دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین رہ چکے ہیں اور ہمیں اندازہ ہے کہ کس طرح کام کرنے والے کے ساتھ مشکلیں آتی ہیں، لیکن ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی نے اس منصب کے وقارمیں اضافہ کیا ہے اوراکادمی میں صرف تین سال میں وہ کام کئے ہیں جو گزشتہ 20 سالوں میں نہیں ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹراطہر فاروقی، ڈاکٹرسید احمد خان، سید اویس رضوی اورسیدعیسیٰ نے اظہارخیال کیا اورڈاکٹر ماجد دیوبندی کومبارکباد پیش کی۔
غالب اکیڈمی میں مشاعرے کا اہتمام
بعد ازاں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا جس کی صدارت طالب رامپوری نے کہ جبکہ نظامت کے فرائض معروف ناظم معین شاداب نے انجام دیئے۔ جن شعرا نے شرکت کی، ان میں طالب رامپوری، ڈاکٹرماجدؔ دیوبندی، ڈاکٹر رحمان مصور، غفران اشرفی، ریاض ساغر، اعجازانصاری، معین شاداب، وارث وارثی، شرف نانپاروی، عرفان اعظمی، انوارالحق شاداں، ارشاد عزیز بیکانیری، حشمت بھاردواج، مرزا ہمدم، سریندر شجر، مرزا انس بیگ، عبد الرب حماد، رضوان امروہی، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر سپنا احساس، ریشمہ زیدی اور سرتا جین کے نام شامل ہیں۔سامعین میں معروف صحافی سہیل انجم، جاوید رحمانی،ابان فلم کے ڈائریکٹرڈاکٹر وارث خان، عمران کلیم، آواز دی وائس چینل کی امینا ماجد اورجتن، محمد رامش، محمد گلزار، یو ٹیوبرمرزا شاہ نظر، یوٹیوبرمحمد شفیق، روزنامہ قومی میزان کی ایڈیٹرشائستہ پروین، ڈاکٹرعقیل احمد، ڈاکٹرشمامہ بلال کے علاوہ سوشل ورکرایمن رضوی، افروزصدیقی، خسروخان، سیدساجدحسین، سینٹرل بیوروآف کمیونیکیشن کے رکن ارشادعلی، کانگریس اقلیتی سیل کے سلیم احمد، سابق کونسلرامیرالدین احمد، راشد شہاب، نظام سیفی،مولانا نیر فیضی،مولانا، صوفی نشاط صدیقی،مولانا سلمان ندوی، مولانا فیصل ندوی، ماسٹر علی نواز،حافظ طٰہی شیخ وغیر کے نام شامل ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔