آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق متھرا کی شاہی عیدگاہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ انتہائی افسوسناک اور خطرناک نتائج کا حامل ہوگا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے آج متھرا کی شاہی عید گاہ کے سروے کی اجازت دے کر نہ صرف 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ یہ فیصلہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان 1968 میں ہوئے اس معاہدہ کے بھی خلاف ہے جس کے تحت مقامی ہندو اور مسلمانوں نے 13.37 ایکڑ زمین عیدگاہ اور مندر کے درمیان تقسیم کرلی تھی۔
یہ معاہدہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مسجد ٹرسٹ کے درمیان ہوا تھا، جس کے مطابق 10.9 ایکڑ زمین کرشن جنم بھومی کو اور 2.5 ایکڑ زمین مسجد کے حوالے کی گئی تھی اور یہ بات طے پائی تھی کہ یہ تنازعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح بابری مسجد تنازعہ کے دوران 1991میں مرکزی حکومت نے عبادت گاہوں سے متعلق ایک قانون منظور کیا تھا تاکہ اس طرح کے تمام تنازعات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اس قانون کے مطابق ملک کی آزادی 15 ؍اگست 1947 کے وقت جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی وہ علی حالہ باقی رہے گی۔امید کی جارہی تھی کہ اب کوئی نیا تنازعہ نہیں پیدا کیا جائے گالیکن جن عناصر کو ملک میں امن و آشتی سے بیر ہے اور جو ہندو اور مسلمان کے درمیان منافرت پیدا کرکے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں وہ شاید ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
بورڈ کے ترجمان نے شاہی عید گاہ ٹرسٹ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا جس میں اس نے کہا کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس معاملہ میں عید گاہ ٹرسٹ کی بھرپور مدد کرے گا اور اس کی لیگل کمیٹی ہر طرح کی قانونی مدد پہنچائے گی۔
بھارت ایکسپریس