سپریم کورٹ نے ووٹ کے بدلے نوٹ معاملے پر اپنا فیصلہ سنادیا ہے جس میں اراکین پارلیمنٹ کو راحت دینے سے انکار کردیا ہےا ور بنچ نے سابقہ فیصلے کو پلٹ بھی دیا ہے۔سپریم کورٹ کے 7 ججوں کے آئینی بنچ نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو آرٹیکل 105(2) اور 194(2) کے تحت کوئی قانونی استثنیٰ حاصل نہیں ہے جو انہیں رشوت لینے کے الزام میں قانونی کارروائی سے بچا سکتا ہے۔سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے۔کسی بھی شخص کو رشوت کی کوئی چھوٹ نہیں مل سکتی ،چاہے وہ رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی ہی کیوں نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے کے دوران نرسمہا راؤ کے فیصلے کے اکثریتی اور اقلیتی فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے، ہم اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس کو مسترد کرتے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ استثنیٰ کا دعویٰ کر سکتا ہے۔نرسمہا راؤ میں اکثریت کا فیصلہ جو قانون سازوں کو استثنیٰ دیتا ہے، شدید خطرہ ہے اور اس طرح اس کو مسترد کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ایک انفرادی قانون ساز استثنیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ دعویٰ ہاوس کے اجتماعی کام کاج سے منسلک ہے۔ آرٹیکل 105 بحث کرنے کے لیے ماحول کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے ،لیکن تب یہ ماحول خراب ہو جاتا ہے جب کسی رکن کو تقریر کرنے کے لیے رشوت دی جاتی ہے۔آئین کے آرٹیکل 105 (2) یا 194 کے تحت رشوت ستانی نہیں ہے۔رشوت عوامی زندگی میں قابلیت کو ختم کرتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ووٹ کسی سمت ڈالا جائے یا بالکل نہ ڈالا جائے،رشوت قبول ہونے پر رشوت مکمل ہوجاتی ہےاور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ رشوت لینے والے نے رشوت دینے والے کے مطابق ووٹ دیا ہے یا نہیں۔نرسمہا راؤ کی تشریح بھارتی آئین کے آرٹیکل 105(2) اور 194 کے خلاف ہے۔
بھارت ایکسپریس۔