تحریر از:- گریراج اگروال
صاف و شفاف پانی صحت عامّہ، تمام طبقات اور معیشت کے لیے نہایت ضروری ہے۔آبپاشی، مویشیوں کی خوراک، کھیتی باڑی اور پیداوار کے تحفظ سمیت زرعی پیداوار کے مختلف پہلوؤں کے لیے بھی پانی ایک ضروری وسیلہ ہے۔ بدقسمتی سے پانی کی فراہمی پائپ سے پانی کے ٹپکنے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں لیٹر پانی ضائع تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں پینے کے پانی میں ممکنہ طور پر نقصان دہ آلودہ عناصر آسانی سے داخل بھی ہو جاتے ہیں۔ ممبئی میں واقع ایک اسٹارٹ اپ’اومسیٹ ٹیکنالوجیز‘ پانی کے پائپ لائن نیٹ ورکس میں اس ضیاع کا پتہ لگانے اور اس کی پیش گوئی کرنے کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کے ممکنہ ذرائع کی نشاندہی کے لیے سٹیلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے۔
پانی کی پائپ لائنوں سے پانی ٹپکنے کو دور کرنے اور زمین کی سطح کے نیچے پانی کا پتہ لگانے کے لیے سٹیلائٹ اسکین کا استعمال کرنے کا خیال اسٹارٹ اپ کے بانی ردھیش سونی کواس وقت آیا جب وہ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے ساتھ چندریان۲ کے چاند مشن پر ایک سائنسداں کے طورپر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔
چندریان۲ مشن میں سونی کی بنیادی ذمہ داریمشن کے مقاصد کے حصول میں تعاون کرنا، خاص طور پر چاند پر ضروری وسائل کی تلاش پر توجہ مرکوز کرنا شامل تھا۔ اس میں پانی اور ہیلیم۳ ریڈیو آئسوٹوپس کی تلاش کے ساتھ ساتھ لوہے اور ٹائٹینیم کے ذخائرکی بھی تلاش شامل تھی جو مستقبل میں چاند کی ممکنہ ایکسپلوریشن اور ممکنہ نوآبادیاتی کوششوں کے لیے اہم عناصرہیں۔
وہ کہتے ہیں ’’اس مشن پر کام کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اگر ہم چاند پر پانی کا پتہ لگا سکتے ہیں تو کیوں نہ زیر زمین پانی کے وسائل کا پتہ لگانے کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے، خاص طور پر خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں۔‘‘
اس خیال نے بعد میں اومسیٹ کے قیام کو حقیقت کی شکل دی۔ سونی نے اپنے شریک بانی چیتن کے ساتھ مل کر سٹیلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ایسے نظام تیار کرنا شروع کیے جن کا ہدفآبی وسائل تھے۔ آبی وسائل کی نگرانی اور ان کی کھوج لگانا بھی اس میں شامل تھا۔ ابتدا میں اس اسٹارٹ اپ کی توجہ آبپاشی کے عمل اور فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے زیر زمین پانی کا پتہ لگانی والی ٹیکنالوجی تیار کرنے پررہی، جس کا مقصد کسانوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ پائپ لائنوں سے پانی کے ضیاع کا پتہ لگانے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو مزید بہترکیا گیا اوربڑے پیمانے پر اسے مقامی طور پر استعمال کیا گیا۔
سونی کہتے ہیں ’’اسمارٹ واٹر سیکٹر میں جدت طرازی کو رفتار دینے کے لیے جیومیٹکس، پریڈیکٹیو اینالیٹکس، ریموٹ سینسنگ، آبجیکٹ ڈیٹیکشن اور اعداد و شمار جیسے مضامین کو مربوط کرتے ہوئے ہماری توجہ خاص طور پر پورے ہندوستان میں قحط زدہ علاقوں میں پانی کی قلت کو کم کرنے پر رہی ہے۔‘‘
نیکسس کی تربیت
اومسیٹ نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب کے ۱۵ ویں گروپ کا حصہ تھا۔ نئی دہلی کا امریکی سفارت خانہ اور الائنس فار کمرشیلائزیشن اینڈ اننوویشن ریسرچ (اے سی آئی آر)کے درمیان شراکت داری کے تحت نیکسس اسٹارٹ اپ، جدت طرازوں اور سرمایہ کاروں کے درمیان پل کا کام کرتا ہے اور نیٹ ورک، تربیت، اتالیقوں اور مالی اعانت تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
نیکسس اسٹارٹ اپ ہب میں تربیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے سونی کہتے ہیں کہ اس نے معلومات کا ذخیرہ فراہم کیا جس نے اومسیٹ ٹیکنالوجیز کی راہ کو ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اہم شعبوں میں طویل مدتی معنویت کے لیے مالی انصرام، اسٹارٹ اپ کے مشن کو بیان کرنے کے لیے موثر طور پر کہانی سنانے کا فن، نیز اعتماد اور ساکھ پیدا کرنے کے لیے حرکات و سکنات اور مالی اعانت حاصل کرنے کی تکنیک شامل ہیں، خاص طور پر جب ممکنہ سرمایہ کاروں اور شراکت داروں سے بات کرنی ہو۔
سونی کہتے ہیں ’’مسائل حل کرنے سے متعلق اجلاس نے پیچیدہ دقتوں سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت میں اضافہ کیا جب کہ املاک ِ دانش کی حکمت عملی کو سمجھنا ہماری اختراعات کے تحفظ اور مسابقتی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ مجموعی طور پر نیکسس تربیت نے ہمیں ان ضروری مہارتوں سے لیس کیا جن سے سٹیلائٹ ٹیکنالوجی اطلاقات میں ہماری کارکردگی اور حریف کمپنیوں سے منفرد دکھائی پڑنے میں ہمیں مدد ملی۔‘‘
ٹیکنالوجی اور اس کے اثرات
اومسیٹ جاپان کے ایل بینڈ سیٹلائٹ کی جدید ترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے جو اسے کنکریٹ میں دس میٹر اور خشک مٹی میں ۶۰ میٹر تک داخل ہونے اور بڑی درستگی کے ساتھ زیر زمین خصوصیات کا پتہ لگانے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
زیر زمین پانی کا پتہ لگانے کے لیے رڈار پولریمیٹری اور زمین کی سطح کے نیچے ہونے والی تبدیلیوں کو معلوم کرنے کے لیے رڈار انٹرفیرومیٹری جیسی اہم ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سونی بتاتے ہیں ’’رڈار پولریمیٹری ہمیں پانی اور دیگر مادّوں کے درمیان فرق کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جس سے زیر زمین پانی کے وسائل کے بارے میں درست بصیرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
سونی کہتے ہیں ’’رڈار انٹرفیرومیٹری سطح کے نیچے کے ماحول میں وقت کے ساتھ تبدیلیوں کا پتہ لگانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ مختلف اوقات میں لی گئی متعدد رڈار تصاویر کا موازنہ کرکے ہم پائپ لائن سے پانی ضیاع ، زیر زمین مادّی نقل و حرکت کی وجہ سے زمین کے دھنسنے یا وسیع زمینی منظر میں دیگر تبدیلیوں کی شناخت کرنے والی باریک تبدیلیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی پائپ لائن سے پانی کی بربادی کا پتہ لگانے کی ہماری کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے ہمیں درستگی اور بہتر کارکردگی کے ساتھ ممکنہ مسائل کی نشاندہی کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘
۲۰۱۹ء میں اپنے قیام کے بعد سے اومسیٹ نے ۴۴ ہزار ہیکٹر سے زیادہ زمین کو اسکین کیا ہے، ۳۸۰۰ واٹر پوائنٹس بنائے ہیں اور ہندوستان کے دیہی علاقوں میں ہزاروں چھوٹے کسان کنبوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا ہے۔ سونی کہتے ہیں ’’ان کسانوں کو اب آبپاشی کے لیے پانی کی بہتر رسائی حاصل ہے جس سے ان کی زرعی پیداوار اور پائیداری میں نمایاں بہتری آئی ہے۔‘‘
اومسیٹ نے ۲۶۰۰ ایسی جگہوں کا پتہ لگائی جہاں سے پانی ضائع ہوتا تھا اور کم و بیش ۱۵ کلو میٹر پائپ لائن نیٹ ورک کو ڈیجیٹائز کیا ہے جس کے نتیجے میں ہر ماہ تقریباً ۱۷ ہزار کلو لیٹر پانی کی بچت ہوتی ہے۔ اس کوشش سے نہ صرف پانی کے تحفظ میں مدد ملی ہے بلکہ پانی کی بربادی سے متعلق معاشی اور ماحولیاتی لاگت میں بھی کمی آئی ہے۔
سونی کہتے ہیں ’’ہماری ٹیکنالوجی اور خدمات نے متنوع گاہکوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے جس میں اُدے پور، اندور اور گاندھی نگر جیسے اسمارٹ شہر بھی شامل ہیں۔‘‘ اومسیٹ اس وقت پورے ہندوستان کے ۲۹ اضلاع میں کام کر رہا ہے جس سے آبی وسائل کو زیادہ موثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اُدے پور میں ہمارے حالیہ پروجیکٹ میں ہم نے ۵۰ کلومیٹر زمین کو اسکین کیا اور کامیابی کے ساتھ ۴۷ مقامات پر لیکیج کا پتہ لگایا ۔ لیکیج کا پتہ لگایا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف پانی پر ہونے والے خرچ میں دو لاکھ ڈالر کی بچت ہوئیبلکہ ۳۸ ہزار کلو لیٹر پانی بھی محفوظ کیا گیا ہے۔‘‘
اومسیٹ کی ٹیکنالوجی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گیسوں کے اخراج کا سراغ لگانے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سرعت سے اہمیت کی حامل بنتی جارہی ہے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک عالمی آب و ہوا کی تبدیلی کے ردعمل میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی نگرانی اور کم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سونی کہتے ہیں ’’ان اخراج کی درست شناخت اور ان کی مقدار کا تعین کرکے ہم ضروری اعداد و شمار فراہم کر سکتے ہیں جو باخبر پالیسی سازی اور بین الاقوامی ماحولیاتی معیارات کی تعمیل کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘
اس اسٹارٹ اپ نے مختلف قسم کے منصوبوں کو نافذ کیا ہے جو مختلف عملی ایپلی کیشنز کے لیے اس کی جدیدسٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان میں آبپاشی کو بہتر کرنے کے لیے زیر زمین پانی کا سراغ لگانے میں ۳۸۰۰ کسانوں کی مدد کرنا، قومی سلامتی کے لیے زیر زمین سرنگوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کے ساتھ تعاون کرنا اور آبدوز وں کا پتہ لگانے میں ہندوستانی بحریہ کی مدد کرنا شامل ہے۔
اگلا قدم
سونی کا مقصد پورے ہندوستان میں تمام پائپ لائن نیٹ ورکس کو ڈیجیٹائز کرنا ہے جس سے بنیادی ڈھانچے کو نمایاں طور پر اپ گریڈ کرنے کی حکومت کی صلاحیت کو رفتاردینے میں مدد ملے گی۔ وہ کہتے ہیں ’’ضائع ہونے والے پانی کو معاشی اثاثے میں تبدیل کرکے ہم لوگ ۲۰۳۰ تک ہر دیہی گھرانے کو روزانہ کم از کم ۵۵ لیٹر پانی کی فراہمی میں مدد کرنا چاہتے ہیں جو پائیدار ترقی کے اہداف کا حصہ ہے۔‘‘ ان کی کمپنی نئے تکنیکی شعبوں میں بھی قدم رکھ رہی ہے اور کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے موسمیاتی راکٹ تیار کر رہی ہے اور روبوٹکس اور انٹرنیٹ آف تھنگس میں بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سونی کہتے ہیں ’’یہ کوششیں سماجی فائدے کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے ہمارے وسیع تر مشن کا حصہ ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سٹیلائٹ اور رڈار ٹیکنالوجی میں ہماری پیش رفت براہ راست معیار زندگی کو بہتر بنائے اور ماحولیاتی انتظام کو فروغ دے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی