ستاروں پر کمند
تحریر-دیپانجلی ککاتی
ہندوستانی خلائی صنعت سے تعلق رکھنے والے نو رہنماؤں نے مارچ ۲۰۲۴ء میں انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی ) کے لیے امریکہ کا سفر کیا جس میں امریکہ۔ہندوستان کے درمیان تجارتی خلائی تعاون پر توجہ دی گئی۔ آئی وی ایل پی امریکی محکمہ خارجہ کا اوّلین پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔
گروپ کی بشمول ایکسیم اسپیس، ویاست، ناسا کے گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹر، ناسا جیٹ پروپلشن لیباریٹری، نیشنل اوشنک اور ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف کامرس نجی اور عوامی شعبوں کے امریکی خلائی ہم منصبوں سے ملاقات ہوئی۔ اس پروگرام کا مقصد ہندوستانی اور امریکی نجی خلائی فرموں کے لیے رابطہ سازی اور شراکت داری کے شعبوں کی نشاندہی کرنے کے مواقع پیدا کرنا تھا۔
آئیے تین شرکاء سے ملیں اور آئی وی ایل پی کے دوران ان کے کاموں اور تجربات کے بارے میں جانیں۔
میں: ناگا بھرتھ ڈاکا، اسکائی روٹ ایرو اسپیس کا شریک بانی اور چیف آپریٹنگ آفیسر ہوں ۔
مجھے خلائی شعبے میں اس وقت دلچسپی پیدا ہوئی جب میں اپنے مستقبل کے ساتھی پون چندنا کے ساتھ ترواننت پورم کے وکرم سارا بھائی اسپیس سینٹر میں خلاسے متعلق کچھ دلچسپ پروجیکٹوں پر کام کر رہا تھا۔
اسکائی روٹ ہندوستان کی سرکردہ نجی خلائی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے ، جو ۲۰۱۸ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک کی اپنی شاندار حصولیابیوں کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے، جس میں ہندوستان کا پہلا نجی راکٹ لانچ کرنا بھی شامل ہے ۔
میں نے اسکائی روٹ کو خلا میں داغا کیوں کہ ایک متحرک ہندوستانی خلائی شعبے کے ظہور، خاص طور پر چھوٹے سیٹلائٹ لانچوں کےلیے تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی بازار نے ایک زبردست موقع پیش کیا۔
میرے کام کا وہ اثر جس پر مجھے سب سے زیادہ فخر ہے وہ بلا شبہ، نومبر ۲۰۲۲ء میں ہندوستان کے پہلے نجی راکٹ وکرم۔ایس کا خلا میں بھیجا جانا ہے ۔
یہ اسکائی روٹ کی صلاحیتوں کی ایک بڑی توثیق تھی اور ہندوستان کی خلائی کاوشوں میں اہم رول ادا کرنے کے لیے اس نے نجی شعبے کی صلاحیت کو ظاہر کیا۔
میرا تازہ ترین پروجیکٹ ہندوستان کے پہلے نجی مداری لانچ کا حصول ہے ۔ ہم اسکائی روٹ کےلیے اس اگلے بڑے سنگ میل کے بارے میں ناقابل یقین حد تک پرجوش ہیں، جس کی سربراہی ہمارا وکرم۔۱ راکٹ کرے گا۔
آئی وی ایل پی پروگرام نے اس بات کی ایک جامع تفہیم فراہم کی کہ کس طرح فعال پالیسیاں، انضباطی اور مالی دونوں، نجی خلائی ٹیکنالوجی کے ماحولیاتی نظام کی ترقی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ناسا ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنے اور پالیسی فریم ورک کے بارے میں سیکھنے جیسے متعینہ قیمت کے معاہدوں اور خلائی ایکٹ کے معاہدوں نے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح اسٹریٹجک حکومت کی مدد اس شعبے میں خاطر خواہ پیش رفت کر سکتی ہے۔ اس پروگرام نے سرکاری نجی شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا اور قیمتی بصیرتیں پیش کیں جنہیں ہندوستان میں خلائی ماحولیاتی نظام میں اضافے کے لیے ہم آہنگ بنایا جا سکتا ہے۔
آئی وی ایل پی کے دوران ایک چیز جس نے مجھے حیران کر دیا وہ لاس اینجلس کے ہاتھورن میں اسپیس ایکس فیکٹری میں آپریشنس کا پیمانہ اور کارکردگی تھی ۔ ایک چھوٹے سیٹلائٹ لانچ اسٹارٹ اپ کے شریک بانی کے طور پر فالکن ۹ راکٹوں کی پیداواری سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنا ناقابل یقین حد تک متاثر کن تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب خلائی شعبے میں نجی صنعت کے لیے ایک مضبوط امدادی نظام موجود ہو تو کیا کچھ ممکن ہے۔
آئی وی ایل پی پروگرام کا میرا سب سے یادگار لمحہ کیپ کیناویرل کا دورہ کرنا اور کینیڈی اسپیس سینٹر کی تاریخ اور وہاں کیے جانے والے نئے اقدامات کے بارے میں جاننا ہے ۔ نئے دور کی لانچ کمپنیوں کو ایڈجسٹ کرنے اور اسپیس پورٹ قائم کرنے کی کوششوں نے امریکی خلائی پروگرام کی آگے کی سوچ کو اجاگر کیا۔ ناسا گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے متاثر کن تجربے کے ساتھ یہ دورہ، جہاں میں نے نینسی گریس رومن اسپیس ٹیلی اسکوپ کو تعمیر ہوتے دیکھا، قابل ذکر کارنامے حاصل کرنے کےلیے ایک اچھی معاون خلائی صنعت کی صلاحیت کو تقویت بخشی۔
میں دگنتارا کا بانی اور چیف ایکزیکٹو آفیسر انیرودھ شرما ہوں۔
مجھے خلائی شعبے میں اس وقت دلچسپی پیدا ہوئی جب میں اپنے انڈرگریجویٹ برسوں کے دوران طلبہ کی سیٹلائٹ ٹیم کا حصہ تھا۔
دگنتارا بنگالورو میں واقع خلائی حالات سے متعلق آگاہی کمپنی ہے ۔ ہم اپنے اسپیس۔مشن ایشورنس پلیٹ فارم عرف اسپیس ۔میپ کے ذریعے خلائی آپریشنس اور خلائی ٹریفک بندوبست کی مشکلات کو حل کرنے کےلیے شروع سے لے کر آخر تک بنیادی ڈھانچہ تیار کر رہے ہیں۔
یہ پلیٹ فارم گوگل میپس کی طرح طاقتور اورجدید ہوگا، جو خلائی آپریشنس اور فلکیاتی تحقیق کے لیے ایک بنیادی پرت کے طور پر کام کرے گا۔
میرے کام کا وہ اثر جس پر مجھے سب سے زیادہ فخر ہے: دگنتارا کو بطور طالب علم شروع کرنا اور اسے ایک پائیدار خلائی ماحول پیدا کرنے کے لیے پرعزم کمپنی کے طور پر آگے بڑھانا ۔
میرا تازہ ترین پروجیکٹ: مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ الگورتھم کا اسپیس۔ ایم اے پی میں انضمام۔ اس سے خلائی ٹریفک کے بندوبست کے لیے پیشن گوئی کے تجزیات اور حقیقی وقت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں میں بہتری آئے گی۔
آئی وی ایل پی پروگرام نے مجھے سکھایا: کس طرح امریکی حکومت اسٹریٹجک سرمایہ کاری، انضباطی مدد اوراختراع کے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام کے فروغ کے ذریعے خلائی صنعت کی صلاحیت سازی میں محرک رہی ہے۔ سرکاری۔ نجی شراکت داری کی حوصلہ افزائی کے لیے وضع کردہ پروگراموں اور پالیسیوں کا خلائی ٹیکنالوجیوں کی تیز رفتار ترقی میں اہم رول رہا ہے۔ آئی وی ایل پی نے بین اقوامی تعاون کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
آئی وی ایل پی کے دوران ایک چیز جس نے مجھے حیران کر دیا وہ امریکہ میں خلائی صنعت کا ناقابل یقین پیمانہ اور خواہش تھی ۔ میرے سب سے یادگار دورے ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری ( جے پی ایل ) اور اسپیس ایکس راکٹ فیکٹری کے تھے۔ اسپیس ایکس جس بڑے پیمانے پر راکٹ بنا رہا ہے اس کے براہ راست مشاہدے نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔
آئی وی ایل پی پروگرام سے میرا سب سے یادگار لمحہ ناسا کے متعدد مراکز کا دورہ کرنے کا موقع تھا، جہاں میں نے پالیسی سازوں اور ماہرین کے ساتھ بات چیت کی جو خلائی تحقیق اور اختراع میں پیش پیش ہیں۔ کیپ کینورل سےاسپیس ایکس فالکن ۹ کی لانچنگ کا ایک شاندار تجربہ تھا۔ خلائی پالیسی اور جدید ٹیکنالوجیز پر بصیرت انگیز مباحثوں کے ساتھ ایک براہ ر است راکٹ لانچنگ دیکھنے کا جوش خلائی صنعت کے موجودہ اور مستقبل کے منظر نامے کا ایک جامع اور متاثر کن منظر فراہم کرتا ہے۔
خلائی شعبے میں امریکہ۔ ہندتعاون کے مستقبل کے بارے میں میرے خیالات انتہائی مثبت ہیں ۔ دونوں ممالک کی خلائی تحقیق اور اختراع کی بھرپور تاریخ ہے۔ وسائل، مہارت اور اسٹریٹجک شراکت داری کو شامل کر کے امریکہ اورہندوستان خلائی کارروائیوں میں عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے راہنمائی کر سکتے ہیں، عالمی برادری کے فائدے کے لیے تکنیکی ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
میں دھروا اسپیس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر اور شریک بانی سنجے نیکانتی ہوں ۔
مجھے خلائی شعبے میں اس وقت دلچسپی پیدا ہوئی جب میں نے ۲۰۱۱ءمیں پی ایس ایل وی ۔ سی ۱۸پر اسرو کی حمایت یافتہ اور اس کی جانب سے لانچ کیے جانے والے پہلے اسٹوڈنٹ نینو سیٹلائٹ ایس آر ایم ایس ایٹ مشن کی قیادت کرنے میں مدد کی۔
دھروا اسپیس، حیدرآباد میں واقع ایک مکمل اسٹیک خلائی ٹیکنالوجی فراہم کنندہ ہے۔ یہ خلا، لانچ اور زمینی حصوں میں فعال ہے اور دنیا بھر میں شہری اور دفاعی گاہکوں کی مدد کرتا ہے۔
میں نے دھروا اسپیس کی بنیاد رکھی کیونکہ مجھے دنیا کا سیٹلائٹ بنانے والا دارالحکومت بننے کی ہندوستان کی صلاحیت پر یقین تھا۔ میں نے ۲۰۱۲ءمیں دیکھا کہ کوئی ایسی نجی خلائی کمپنی نہیں تھیں جو کچھ بھی خلا میں بھیج رہی تھی ۔ ایک بار جب حکومت نے نجی شعبے کی مدد کرنا شروع کر دیا تو میں جانتا تھا کہ یہ ایک نئے عہد کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
میرے کام کا اثر جس پر مجھے سب سے زیادہ فخر ہے، وہ یہ دیکھنا ہے کہ کس طرح ہندوستانی خلائی شعبے کی نجکاری میں دھروا اسپیس کی شراکت نے عالمی آبادی کو متاثر کیا ہے۔
میرا تازہ ترین پروجیکٹ ہمارے پی ۳۰ نینو سیٹلائٹ پلیٹ فارم پر دھروا اسپیس کا آنے والا ایل ای اے پی ۔۱ مشن رواں سال کے آخر میں شروع ہونے والا ہے، جوہندوستان کی میزبانی میں پہلا پے لوڈ مشن ہوگا۔
آئی وی ایل پی پروگرام نے مجھے سکھایا کہ امریکہ کے غیر سرکاری اداروں میں ان کے ہندوستانی ہم منصبوں کی صلاحیتوں کے بارے میں مزید بیداری کی ضرورت ہے۔ مزید بیداری بہتر دوطرفہ تعاون کا باعث بنے گی۔
آئی وی ایل پی کے دوران ایک چیز جس نے مجھے حیران کر دیا اور خوشگوار طور پر ایسا ہی ہوا ، وہ پورے پروگرام میں اختراع پر توجہ مرکوز کرنا تھا ۔ اس نے عالمی بازار میں مسابقتی موقف کو برقرار رکھنے کے لیے تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
آئی وی ایل پی پروگرام کا میرا سب سے یادگار لمحہ گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کا دورہ ہے ، جس میں نینسی گریس رومن اسپیس ٹیلی اسکوپ کی اے آئی ٹی سہولت کا دورہ شامل تھا۔ میرے اندر موجود انجینئر نے اس تجربے سے بہت لطف اٹھایا، خاص طور پر جب دھروا اسپیس مختلف خلائی جہازوں کے ڈیزائن، انجینئرنگ، انضمام اور جانچ کےلیے ۲لاکھ ۸۰ ہزار مربع فٹ زمین کی سہولت قائم کر رہا ہے۔ اس دورے نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ دھروا اسپیس صحیح راستے پر ہے۔
خلائی شعبے میں امریکہ ۔ہندوستان کے مابین تعاون کے مستقبل کے بارے میں میرے خیالات: صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ تمام اہم شراکت دار، نجی اور حکومت کے درمیان مستقل اور شفاف مکالمہ حقیقی تعاون، مشترکہ اختراع اور پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
-بھارت ایکسپریس