تحفظِ آئینِ ہند کنونشن سے مولانا ارشد مدنی خطاب کرتے ہوئے
نئی دہلی: مسلمانوں کی جانب سے راہِ خدا میں وقف کردہ اراضی اور املاک کی دیکھ ریکھ اور تحفظ کے لئے بنا ادارہ وقف بورڈ میں ترمیم کے لئے مرکز کی مودی حکومت کوشاں ہے۔ حکومت نے 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں متعارف کروایا ہے،اس کے بعد مسلمانوں کی متعدد مذہبی تنظیموں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے ۔ اسی سلسے کی ایک کڑی کے تحت آج قومی دارلحکومت دہلی کے اندرا گا ندھی انڈوراسٹیڈیم میں مسلمانوں کی سب سے متحرک مذہبی تنظیم ‘جمعیتہ العلماء ہند’ کی جانب سے ‘تحفظِ آئین ہند کنونشن’ نامی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔
وقف ترمیمی بل پر مسمانوں کے خدشات
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جمعیتہ علماء ہند کے صدر اور معروف عالم دین مولانا ارشد مدنی نے قومی اور بین الاقوامی سمیت متعدد امور پر اظہار خیال کیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک وقف ترمیمی بل کا تعلق ہے تو ترمیمی بل خامیوں سے پُر ہے، اس ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور اداروں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کی جانب سے لائے گئے وقف ترمیمی بل کے خلاف میدان عمل میں ہیں اور حکومت کے اس قدم کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں جمعیتہ علماء ہند سمیت ملک کی متعد د مسلم تنظیموں کے سربراہان اور کارکنان فعال اور متحرک ہیں اور انہی کاوشوں کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم نے آندھرا پردیش کے وزیر اعلی این چندر بابو نائیڈو اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار سے ملاقات کر کے جہاں ایک طرف وقف ترمیمی بل کی خامیوں سے آگا کیا تو وہیں دوسری جانب مذکورہ بل کے تعلق سے ملک کے مسلمانوں کے خدشات سے بھی با خبر کرا یا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یکم دسمبر یا 15 دسمبر کو آندھرا پردیش کے وزیراعلی چندر بابو نائیڈو کے آبائی ضلع کڑپا میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا اور اس تقریب میں پانچ لاکھ مسلمان جمع ہوکر وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے ۔
مسلمانوں پر ظلم و تشدد
اس کے علاوہ مولانا ارشد مدنی کے ملک کے متعدد سنگین مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں جو گستاخانہ جملہ کہتا ہے اسے کہیں چھپا دیا جاتا ہے تاہم اس گستاخی کے خلاف جو مسلمان احتجاج کرتا ہے اسے جیل کی کوٹھریوں میں قید کردیا جاتا ہے ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ملک میں ان دنوں بلڈوزر کاروائی موضوع گفتگو ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے غیر قانونی طورپر اپنے مکان کی تعمیر کی ہے تو انتظامیہ کو چاہیے کہ پہلے اسے نوٹس دے اس کے بعد مکان کو منہدم کرے، لیکن انتظامیہ کی جانب سے قانونی پہلؤں کو نظر اندار کرکے عمارت توڑ دی جاتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ بلڈوزر کاروائیوں میں 95 فیصد مسلمانوں کے مکانات کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط اور غیر قانونی ہے ۔
جمعیتہ علماء ہند کے صدر نے مزید کہا کہ ملک کے اندر وقتاً فوقتاً بے شمار ایسے واققات منظرعام پر آتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی اور ماحول سازی کی جارہی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ اپنی سازشوں اور مکاریوں سے شمع اسلام کو بجھادیں تو انہیں یہ بات ذہن نشیں رکھی ہوگی یہ ذہنیت آج سے نہیں بلکہ چودہ سو سالوں سے چلی آرہی ہے ،اسلام اس وقت بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ رہا اور اسلام تاقیامت پورے وقار اور شان کے ساتھ زندہ رہے گا۔
کیا نہرو اور گاندھی بھی دہشت گرد تھے؟
فلسطین کے تناظر میں بات کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جس دن فلسطین کے جیالوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور اپنی آزادی کے حصول کے لئے میدانِ کارزار میں آئے تو اس دن ملک ہندوستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ دہشت گردانہ کاروائی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے یا تاریخی حقائق سے ناواقفیت کی علامت ہے کہ اپنے ملک کی آزادی کے حصول کے لئے جدو جہد کرنا کیا یہ دہشت گردی ہے ؟ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اگر غلامی کی زنجیروں کو توڑنا دہشت گردی ہے تو پھر گاندھی جی ،پنڈت جواہر لعل نہر اور ہمارے اکابرین بھی دہشت گرد تھے۔ مولانا ارشد مدنی کے بقول ان کے اس بیان کے بعد سے ہندوستانی حکومت کی جانب سے تاحال ایسا کوئی بیان منظر عام پر نہیں آیا ہے ۔
جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی جانب سے قومی دارلحکومت دہلی کے اندرا گاندھی انڈور اسٹیڈیم میں منعقد ‘تحفظِ آئین ہند کنوننشن نامی ‘ تقریب میں ملک مختلف گوشوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ ملک کی مختلف تنظیموں کے ذمہ داران اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداران بھی شریک ہوئے ۔ اس تحفظ آئین ہند کنونشن میں موجود لاکھوں افراد نے جہاں ایک طرف وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنی آواز بلند کی تو وہیں دوسری جانب ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف کی جارہی ما حول سازی،جیسے مدارس کو نشانہ بنانا، مساجد کی تعمیرات کے خلاف احتجاج کرنا،مسلمانوں کے مکانا ت کو نشان زد کر کے بلڈوزر سے توڑدینا،مسلمانوں کو گائے کے گوشت کے نام پر تشدد اور زود وکوب کا نشانہ بنا نا،مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرنے سمیت دیگر امور پر اپنی برہمی کا اظہار کیا ۔
-بھارت ایکسپریس