گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں ہمارے اہل خانہ نے ہزاروں سالوں سے’سنگچچھدھونس سنوددھونس وو منانسی جانتام‘ یعنی ہم سب ایک ساتھ چلیں: ایک ساتھ بولیں: ہمارے دل ایک ہوں، جیسے کہ مثالی نظریات کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے کی بنیاد رکھی۔ ایک متنوع، کثیرلسانی اورکثیرالثقافتی قوم ہونے کے باوجود، ہمارا ملک مشترکہ روایات، مخلوط ثقافت اورمشترکہ اخلاقی اقدارکے قدیم بندھنوں سے مالا مال ہے۔
ہندوستانی ثقافتی اقدار پربے پناہ اعتماد رکھنے والے اورعوام کے لئے ہمیشہ وقف رہنا اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی، جو ہیں اور عوام کے تئیں ہمیشہ پرعزم اور فرض شناس رہنے والے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستانی معاشرے کی اسی خصوصیت کومزید مضبوط بنانے کے لئے ”ایک بھارت- بہترین بھارت“ (ایک بھارت-شریشٹھ بھارت) سے ملک کے ہرعلاقے کے ثقافتی ورثے کے احترام کے لئے بھاگیرتھ کام کرنے کا عزم کیا ہے۔ وزیراعظم کے اس خیال کوٹھوس شکل دیتے ہوئے، حال ہی میں گجرات حکومت نے بھگوان سومناتھ مہادیو کی مقدس موجودگی میں تاریخی سوراشٹرتمل سنگم کا ایک عظیم الشان تقریب اہتمام کیا ہے۔
یہ تقریب ہندوستان کے جنوبی سرے اورمغربی سرے کی ثقافتوں کا سنگم ہے۔ تقریباً 1200 سال کے طویل عرصے کے بعد اس شدت کے ساتھ ایسی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔ یہ پہلی بارہو رہا ہے کہ صدیوں پہلے تمل ناڈو جاچکے سوراشٹر نژاد کے لوگ اس پروگرام کے موقع پراپنے آبائی وطن کا دورہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح، دونوں ریاستوں کی افسانوی اہمیت کی بات کرکریں توگجرات کے سمندری ساحل پر بھگوان سومیشور شیو بستے ہیں، تو وہیں تمل ناڈوکے سمندری ساحل پر، بھگوان شری رام کے ذریعہ قائم کردہ تاریخی رامیشورم مندر واقع ہے۔ ساتھ ہی، دونوں ہی ریاستیں قدیمی نقطہ نظر سے ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ ایک طرف جہاں گجرات، ہڑپا تہذیب کی طرح قدیم ترقی یافتہ ثقافت کا مرکز رہا ہے، وہیں تمل ناڈو اورتمل ثقافت ہندوستان کے قدیم اورفخرکا مرکز ہے۔
وہیں تاریخ کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ”ایک بھارت- بہترین بھارت“ کے خیال سے سرشاریہ پروگرام بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج سے کچھ ہزارسال پہلے جب ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے متوازی گجرات میں بھی مسلسل غیرملکی حملے ہو رہے تھے، تب سوراشٹرا کے کچھ باشندوں نے تمل ناڈو میں پناہ لی اور وہاں جاکر آباد ہوگئے۔
ہمارے سوراشٹرکے ان آباء واجداد نے گجرات کی دستکاری اورفنون کوتمل ناڈو بھی آگے بڑھایا، جسے وہاں کے لوگوں کے درمیان منظوری اورمقبولیت حاصل ہوئی۔ اس وقت کے حکمراں تھیروملائی نایکّر اور ان کی شہزادی نے ایک بار ہمارے گجراتی کاریگروں کے بنائے ہوئے ریشم کے کپڑے کی تعریف میں کہا تھا کہ اگر ہمارے سوراشٹرکے ریشم کے کاریگریہاں نہ آتے تو ہمیں ریشم پہننا پڑتا، جوچینی اوریورپی ریشم سے بہترہے۔ سوراشٹرا نژاد کے تمل باشندوں کوملا یہ اعزازہندوستان کی ثقافتی، سماجی اورفنکارانہ ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔
یہ بات خاص طور پرقابل ذکر ہے کہ ہمارے وزیراعظم جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، تب انہوں نے سال 2005 اور2006 میں اس کمیونٹی کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے لئے کئی کوششیں شروع کی تھی۔ ان کی یہ کوششیں تب رنگ لائی، جب سال 2010 میں، نریندربھائی کی موجودگی میں تمل ناڈو کے مدورئی میں وراٹ سوراشٹرسنگم کا انعقاد کیا گیا، جس میں تقریباً 50 ہزارلوگوں نے اپنی موجودگی درج کروائی تھی۔ یہ نریندربھائی کے بھاگی رتھ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج گجرات اورتمل ناڈوکے سوراشٹرا کے لوگوں کے درمیان تبادلے کے مختلف خوش کن پروگرام چل رہے ہیں۔
دنیا میں منتقلی ایک فطری عمل ہے۔ لیکن، سوراشٹر کے لوگوں کی یہ ہجرت ایک منفرد اورتاریخی واقعہ ہے۔ میں سوراشٹرنژاد تمل کمیونٹی کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ وہ بیرونی حملہ آوروں کے ظلم کی وجہ سے بے گھر ہوئے، لیکن انہوں نے ہمیشہ سوراشٹرکی روایت اور ثقافت کو اپنے دل میں زندہ رکھا۔
سوراشٹرتمل سنگم پروگرام کے ذریعہ، اس کمیونٹی کے ذریعہ سے ہزاروں سالوں کے بعد اپنے مادروطن کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ جہاں ایک طرف ہم گجراتی اپنے سوراشٹرین تامل بھائیوں کو خوش آمدید کہنے اور خیرمقدم کرنے کے لئے بے تاب ہیں، تو وہیں دوسری طرف سوراشٹرا نژاد ہمارے تمل بھائی بھی اتنے سالوں بعد اپنے آباء واجداد کی سرزمین پرآ کر بہت جذباتی اور فخر محسوس کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت ہماری حکومت کی طرف سے بہت سے ثقافتی پریزنٹیشنزاورکھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی سوراشٹرین تمل بھائیوں کو تاریخی اور پیرانک اہمیت کے حامل بھگوان سومناتھ اوردوارکادھیش بھگوان کرشن کے درشن، اسٹیچوآف یونٹی کا دورہ، جدید ترین ٹکنالوجی کے ساتھ بنایا گیا دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ، اورساسن گرجیسی مشہور پناہ گاہ میں ایشیائی شیروں کا انٹرویو، اس کے ذریعے ان کے اس دورے کو ہمیشہ کے لئے یادگار بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
وزیراعظم نریندرمودی نے ایک بار”ایک بھارت، شریشٹھ بھارت” کے تناظرمیں کہا تھا، “سردار پٹیل نے ہمیں “ایک بھارت” دیا ہے اور اب یہ ہم سبھی ہندوستانیوں کا فرض ہے کہ ہم اپنی اجتماعی کوششوں سے اسے “شریشٹھ بھارت” بنائیں۔ سوراشٹر-تمل سنگم پروگرام کے ساتھ ساتھ گجرات میں مادھو پورمیلہ بھی نریندربھائی کے ان خیالات پرمبنی ہے۔ پیرانک کتھا پرمبنی مادھوپورمیلہ دوارکا کے بادشاہ بھگوان کرشنا اوراروناچل پردیش کی شہزادی روکمنی کی شادی کو نشان زد کرتی ہے۔ یہ بھی مغربی ہندوستان اورمشرقی ہندوستان کی دوثقافتوں کا ایک سنگم پروگرام بھی ہے۔ یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ہم نے اس کے بھی دوکامیاب ایونٹس مکمل کئے ہیں۔
ہمیں مستقبل میں ایسی مختلف کوششوں سے ثقافتی تبادلے کے رجحان کو مزید بڑھانا ہوگا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کے لئے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی طرف آگے بڑھنا ہوگا، جہاں ہم سبھی ایک دوسرے کی زبان، ثقافت اورروایت کو قبول کرنے کا موقع ملے۔
جدید ہندوستان کے بانی سردار پٹیل کے ذریعہ جغرافیائی طورپرایک ہندوستان، تہذیبی طور پر بہترین تبھی بنے گا، جب ہندوستان کی تمام ثقافت اورروایت کا احترام اورفروغ ہرشہری کا اخلاقی اقداراور فرض کا لازمی حصہ بن جائے گا۔ ’’بہترین ہندوستان‘‘ (شریشٹھ بھارت) کے لئے یہ بالکل ضروری ہے کہ ہم نہ صرف بامعنی رہنما بننے کی طرف آگے بڑھیں بلکہ انسانی مذہب، سماجی ہم آہنگی، ثقافتی تکثیریت کے ساتھ ساتھ مثالی اخلاقی اقدارکواپنانے میں بھی دنیا میں رہنما بنیں۔
مجھے یقین ہے کہ ثقافتی تنوع کے جشن کے طور پر”سوراشٹر-تمل سنگم” جیسے پروگراموں کا انعقاد اورمرکزمیں نریندر بھائی کی حکومت اورملک کی ریاستی حکومتوں کی مسلسل مخلصانہ کوششیں یقینی طورپر”ایک ہندوستان” سے”بہترین ہندوستان” تک کی راہ ہموار کریں گی۔
اس خاص موقع پرحب الوطنی اورملک کے لئے قربانی کے جذبے کا اظہار کرنے کے لئے، ہمیں ترغیب دینے والے اورہندوستان کے سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کی چند سطریں یاد آرہی ہیں، ”یہ (بھارت) چندن کی بھومی (سرزمین) ہے، استقبال کی سرزمین ہے۔ یہ قربانیوں کی سرزمین ہے، یہ نذرانے کی سرزمین ہے۔ اس کا کنکرکنکرشنکر ہے، اس کا بندو بندو گنگا جل ہے۔ ہم جئیں گے تو اس کے لئے، اور مریں گے تو اس کے لئے۔“
(مضمون نگار بھوپیندر بھائی پٹیل گجرات کے وزیراعلیٰ ہیں )