کچھ اقدامات سے باہر ملکوں میں ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے، وطن عزیز کی ہر صحافت کوایک ہی رنگ ونظریہ سے دیکھنا مناسب نہیں کیوں کہ دیگر صحافیوں کی طرح اردو کے صحافی ابھی تک دو خیموں میں نہیں بٹے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سائبان فاونڈیشن(رجسٹرڈ) دہلی کے زیر اہتمام معروف صحافی عتیق مظفر پوری کی آٹھویں برسی پر”موجودہ حالات میں صحافت کا کردار‘‘ کے موضوع پر پریس کلب آف انڈیا میں منعقدہ مذاکرہ میں مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور راجستھان کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا- انہوں نے مزید کہا کہ سرکاریں زبانوں کے عروج و زوال کی ذمہ دار نہیں ہوتیں بلکہ زبانوں کے بولنے والے ہوتے ہیں۔انہوں نے موجودہ حالات اور صحافت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو صحافت کو تجارت سمجھتے ہیں ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیجئے۔
پریس کونسل آف انڈیا کے رکن اور پروگرام کے مہمان خصوصی جے شنکر گپتا نے موجودہ حالات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج سچ کی آواز کو دبایا جا رہا ہے آج کی منفی صحافت منفی لوگوں کو ہیرو بنا رہی ہے، ٹی وی چینلوں کا حال یہ ہے کہ وہ حقیقت کو نہیں دکھا رہے ہیں اور یہ کتنے افسوس کی بات ہےکہ آج کا میڈیا بر سراقتدار پارٹی سے نہیں اپوزیشن سے سوال کر رہا ہے-انہوں نے کہا کہ سچ کے ساتھ کھڑے ہو جانا آج کی سب سے سچی صحافت ہے۔
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اور مہمان ذی وقار اوما کانت لکھیرا نے متعلقہ موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز کو ہرطبقہ کی مشترکہ کوششوں سےآزادی ملی ہے اور آئین نے ہمیں جو حقوق و اختیارات دیئے ہیں ان کابخوبی استعمال کرنا چاہیےعلاوہ ازیں کسی بھی برسر اقتدار پارٹی کے آئین مخالف اقدام کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کرنا چاہیے۔ بین المذاہب ہم آہنگی فاؤنڈیشن کے صدر مہمان اعزازی ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے عتیق مظفر پوری کے طریقہ تعلیم و تربیت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے اندر سمت طے کرنے کی طاقت کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑے لوگوں کی اصلاح کی بھی طاقت ہے۔ انہوں نے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سخت حالات میں گھبرانا نہیں چاہئے ۔انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون وتعلقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں احساس کمتری سے باہر نکلنا ہوگا۔انہوں نے موجودہ صحافت کی صورت حال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اب صحافت ملازمت میں تبدیل ہو چکی ہے۔
سینئر و ممتاز صحافی شعیب رضا فاطمی نے عتیق مظفر پوری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اچھا انسان ہونے کے ساتھ ایک فنکار بھائی تھے ۔انہوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں کہاکہ حالات بدلیں گے اور جیت سچائی کی ہو گی۔سینئر صحافی سنجے جین نے موجودہ حالات اور صحافت کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صحافت نےاپنے اصل مقصد و مشن کو چھوڑ کر دوسری سمت چلا گیا ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں صحافت کا کردار و پیغام مثبت ہونا چاہیے۔معروف صحافی عتیق مظفر پوری کے بڑے صاحبزادے اور سائبان فاونڈیشن کے جنرل سکریٹری جاوید رحمانی نے جملہ شرکاء پروگرام سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ مرحوم عتیق مظفرپوری جیسی فکر رکھنے والے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔
معین شاداب نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ ہر انسان اپنے کام کی بنیاد پر یاد کیا جاتا ہے۔ مرحوم عتیق مظفر پوری اپنے ہمہ جہتی کام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں بے باکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ صحافیوں میں وہ ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔شرکاء میں شفیق الحسن، عاقب جاوید ، مشتاق انصاری ،فیروز صدیقی رکن مجلس عاملہ ملی کونسل، ڈاکٹر مختار عالم اسسٹنٹ پروفیسر آئی اے ایم آر یونیورسٹی میرٹھ ، جاوید اختر وارثی، محمد جسیم، مولانا محب اللہ ندوی، ڈاکٹر محمد عادل، علی عادل خان ، خاور حسن ، دھرمیندر شکلہ ، سنجے جین، معروف رضا ، رضیہ شیخ ، عبدالمتین، غفران آفریدی کے نام قابل ذکر ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔