Bharat Express

Rajya Sabha Election 2024: جیتی ہوئی بازی کیسے ہار گئیں کانگریس اور سماجوادی پارٹی؟ یوپی سے ہماچل تک بی جے پی نے کیسے پلٹ دیا راجیہ سبھا کا کھیل

ملک کے 15 ریاستوں کی 56 راجیہ سبھا سیٹوں پرالیکشن ہوئے ہیں، جن میں الگ الگ 12 ریاستوں کی 41 سیٹ پر بلامقابلہ منتخب کئے گئے تھے۔ کرناٹک کی 4، اترپردیش کی 10 اور ہماچل پردیش کی ایک راجیہ سبھا سیٹ پرمنگل کے روز الیکشن ہوا۔ کرناٹک کی 4 سیٹوں میں سے تین سیٹیں کانگریس، اورایک سیٹ بی جے پی جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ اترپردیش کی 10 میں سے 8 سیٹ بی جے پی اور دو سیٹ سماجوادی پارٹی نے جیتی ہے۔

راجیہ سبھا الیکشن 2024

اترپردیش، ہماچل پردیش اورکرناٹک کی 15 راجیہ سبھا سیٹوں پرمنگل کے روزووٹنگ ہوئی۔ بی جے پی نے الیکشن میں ہاری بازی جیتنے کا کام کیا ہے۔ جبکہ کانگریس اورسماجوادی پارٹی بازی ہارگئی۔ اراکین اسمبلی یا ایم ایل ایزکے لحاظ سے ہماچل پردیش میں کانگریس کے پاس راجیہ سبھا میں جیتنے کا پورا نمبرگیم تھا تو یوپی میں سماجوادی پارٹی کے پاس اپنے تیسرے امیدوار کو جیت دلانے کا نمبر تھا۔ اس کے باوجود بی جے پی نے ہماچل پردیش میں ہرش مہاجن اوریوپی میں سنجے سیٹھ کوامیدوار ہی نہیں بنایا بلکہ انہیں جیت دلانے کا کام بھی کیا۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ہماچل پردیش اوریوپی میں بی جے پی نے کیسے راجیہ سبھا الیکشن کا گیم پلٹ کر سیاسی بازی اپنے نام کرلی؟

ملک کے 15 ریاستوں کی 56 راجیہ سبھا سیٹوں پرالیکشن ہوئے ہیں، جن میں الگ الگ 12 ریاستوں کی 41 سیٹ پر بلامقابلہ منتخب کئے گئے تھے۔ کرناٹک کی 4، اترپردیش کی 10 اور ہماچل پردیش کی ایک راجیہ سبھا سیٹ پرمنگل کے روزالیکشن ہوا۔ کرناٹک کی 4 سیٹوں میں سے تین سیٹیں کانگریس، اورایک سیٹ بی جے پی جیتنے میں کامیاب رہی جبکہ اترپردیش کی 10 میں سے 8 سیٹ بی جے پی اوردوسیٹ سماجوادی پارٹی نے جیتی ہے۔ ہماچل پردیش کی ایک سیٹ بی جے پی کے نام رہی۔ اراکین اسمبلی کی تعداد کے لحاظ سے سماجوادی پارٹی یوپی میں تین سیٹیں جیتنے کی صورتحال تھی تو ہماچل پردیش میں کانگریس کے پاس نمبرگیم تھا۔ ایسے میں بی جے پی نے یوپی کی آٹھویں سیٹ کی ہاری بازی کو اپنے نام کیا تو ہماچل پردیش کی اکلوتی سیٹ اپنے نام کرکے کانگریس کو زبردست جھٹکا دیا۔

ہماچل پردیش میں جیتی بازی کانگریس کیسے ہاری؟

ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے اورپارٹی کے پاس 40 اراکین اسمبلی ہیں، جس کے سبب کانگریس امیدوارابھیشیک منو سنگھوی کی جیت طے مانی جا رہی تھی۔ بی جے پی کے پاس 25 اراکین اسمبلی ہیں جبکہ راجیہ سبھا الیکشن جیتنے کے لئے 35 اراکین اسمبلی کی حمایت چاہئے تھی۔ کانگریس کے پاس راجیہ سبھا سیٹ کی جیت سے 5 اضافی اراکین اسمبلی کا ووٹ تھا جبکہ بی جے پی کو جیتنے کے لئے 10 اراکین اسمبلی کے اضافی ووٹوں کی ضرورت تھی۔ ایسے میں نتیجے جب سامنے آئے تو مقابلہ برابری پر رہا اور دونوں امیدواروں کو 34-34 ووٹ ملے۔ اس کے بعد کانگریس کے پیروں تلے سے سیاسی زمین ہی کھسک گئی۔

دراصل، کانگریس کے 6 اراکین اسمبلی نے کراس ووٹنگ کی۔ ساتھ ہی سکھویندر سنگھ سکھو کی حمایت کر رہے تین آزاد اراکین اسمبلی نے بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ کرکے سارے کھیل کو ہی پلٹ دیا۔ راجیہ سبھا الیکشن میں دونوں ہی امیدواروں کو جب 34-34 ووٹ ملے۔ اس طرح ڈرا کے ذریعہ فیصلہ ہوا اورسیاسی بی جے پی کے ہرش مہاجن کے نام رہی۔ کانگریس کے لئے یہ بڑا جھٹکا ہے کیونکہ اب حکومت پر بھی بحران گہرا ہوگیا ہے۔ کانگریس اپنے اراکین اسمبلی کوجوڑ کرنہیں رکھ سکی، جس کے سبب ابھیشیک منو سنگھوی کو ہارکا منہ دیکھنا پڑا۔

یوپی میں کیسے سماجوادی پارٹی ہارگئی تیسری سیٹ

اترپردیش کی 10 راجیہ سبھا سیٹ پرالیکشن ہوئے، جس میں 8 سیٹیں بی جے پی اور 2 سماجوادی پارٹی جیتنے میں کامیاب رہی۔ صوبے کی 10 سیٹوں پر11 امیدوار میدان میں اترے تھے، جس میں بی جے پی کے 8 اور سماجوادی پارٹی کے تین امیدوارقسمت آزما رہے تھے۔ اراکین اسمبلی کی تعداد کے لحاظ سے اترپردیش میں بی جے پی 7 اورسماجوادی پارٹی تین سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں تھیں۔ اس کے باوجود بی جے پی نے اپنا آٹھواں امیدوار سنجے سیٹھ کے طور پراتارا، جس کے بعد سماجوادی پارٹی کے لئے اپنی تیسری سیٹ کے جیتنے کا حساب کتاب خراب کرنا شروع کردیا۔

یوپی میں ایک راجیہ سبھا سیٹ جیتنے کے لئے 37 اراکین اسمبلی کی حمایت چاہئے تھی۔ آرایل ڈی کے جانے کے بعد سماجوادی پارٹی کے پاس 108 اراکین اسمبلی تھے اورکانگریس کے ملاکر 110 ہو رہے تھے۔ سماجوادی پارٹی کو تیسرے امیدوارکو جتانے کے لئے محض ایک اضافی ووٹ کی ضرورت تھی۔ آرایل ڈی کے رہتے ہوئے سماجوادی پارٹی کی تینوں سیٹیں جیتنا تقریباً طے مانا جا رہا تھا، لیکن الیکشن سے پہلے ہی جینت چودھری کو بی جے پی نے اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس طرح آرایل ڈی اور راجا بھیا کی حمایت ملنے کے بعد بی جے پی کے پاس 289 ووٹ ہو رہے تھے جبکہ اسے اپنے آٹھویں سیٹ جیتنے کے لئے 396 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ بی جے پی کو 7 اضافی ووٹ کی ضرورت تھی تو سماجوادی پارٹی کو صرف ایک ووٹ کا انتظام کرنا تھا۔

اکھلیش یادو اپنے تینوں راجیہ سبھا اراکین کو جتانے کے لئے ہرسیاسی داؤں چل رہے تھے، جس میں راجا بھیا سے بھی رابطہ کیا گیا، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ بی جے پی سماجوادی پارٹی کے اراکین اسمبلی میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوگئی۔ راجیہ سبھا الیکشن میں ووٹن سے ٹھیک ایک دن پہلے ہی اکھلیش یادو اس بات کو سمجھ گئے کہ ان کی پارٹی کے کچھ اراکین اسمبلی نے کراس ووٹنگ کا من بنا لیا ہے۔ قانون سازاسمبلی میں منگل کے روز یعنی 27 فروری کو ہوئی ووٹنگ کے دوران سماجوادی پارٹی کے 7 اراکین اسمبلی نے کراس ووٹ دیا اورایک خاتون ایم ایل اے غیرحاضررہیں۔

راجیہ سبھا الیکشن کی ووٹنگ سے کچھ پہلے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی منوج کمار پانڈے نے چیف وہپ عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سماجوادی پارٹی کے سات اراکین اسمبلی نے کراس ووٹنگ کی، جس میں منوج کمارپانڈے، راکیش پانڈے، راکیش پرتاپ سنگھ، ابھے سنگھ، ونود چترویدی، پوجا پال اورآشوتوش موریہ شامل تھے۔ وہیں، امیٹھی سے رکن اسمبلی مہاراجی دیوی ووٹ دینے نہیں پہنچیں۔ اکھلیش یادو این ڈی اے خیمے سے یعنی اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی سہیل دیو سماج پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کا ووٹ اپنے حق میں لانے میں کامیاب رہے، لیکن ان کے سات اراکین اسمبلی کی کراس ووٹنگ اورایک ایم ایل اے کی غیرحاضری سے پورا کھیل خراب ہوگیا۔ اس طرح سماجوادی پارٹی اپنی جیتی ہوئی بازی ہارگئی تو بی جے پی ہاری ہوئی بازی کو اپنے نام کرلیا۔

 

بھارت ایکسپریس۔

Also Read