وزیر اعظم نریندر مودی۔ فائل فوٹو
سنت شرومنی آچاریہ شری 108 ودیا ساگر جی مہاراج جی نے سمادھی لے لی ہے اور ہم سب کو افسردہ چھوڑگئے ہیں۔ ان کی زندگی روحانی عظمت سے مالا مال ایک وسیع دور پر محیط ہے، جس میں زبردست حکمت، بے پناہ ہمدردی اور انسانیت کی ترقی کے لیے ایک پختہ عزم موجود ہے۔ مجھے متعدد مواقع پر ان کا آشرواد حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اسی لئے مجھے، بے انتہا نقصان کا احساس ہوا ہے، جو ایک رہنمائی کرنے والی روشنی کو کھودینے کے مترادف ہے، جس نے مجھ سمیت بے شمار لوگوں کے لیے راہ کو روشن کیا ہے۔ ان کی گرمجوشی، پیار اور آشیرواد صرف خیر سگالی کے لئے ہی نہیں تھیں، بلکہ روحانی توانائی کی زبردست منتقلی تھی جو ان تمام خوش نصیبوں کو بااختیار بناتی تھی اور تحریک دیتی تھی، جو ان سے رابطے میں آئے تھے۔
پوجیہ آچاریہ جی کو ہمشہ حکمت، ہمدردی اور خدمت کی تریوینی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک سچے تپسوی تھے، جن کی زندگی بھگوان مہاویر کے نظریات کی مظہر تھی۔ ان کی زندگی نے جین مت کے بنیادی اصولوں کی مثال پیش کی، ان کے نظریات کو اپنے اعمال اور تعلیمات کے ذریعے حقیقی طور پر پیش کیا۔ تمام جانداروں کے تئیں ان کی فکر، زندگی کے لیے جین مت کی زبردست احترام کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے سچائی پر عمل پیرا ہوکر اپنی پوری زندگی گزاری، جس سے اپنی سوچ، قول اور عمل میں ایمانداری پر زور دینے کی جین ازم کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے انتہائی سادہ طرز زندگی گزاری۔ یہ ان جیسی قدآور شخصیات کی وجہ ہی ہے، جس سے پوری دنیا جین ازم اور بھگوان مہاویر کی زندگی سے اب بھی متاثر ہوتی ہے۔ جین برادری کے لیے ان کی شخصیت انتہائی قد آور تھی لیکن ان کا اثر و رسوخ صرف ایک برادری تک ہی محدود نہیں تھا۔ تمام عقائد، خطوں اور ثقافتوں کے لوگ ان کے پاس آتے تھےاور انہوں نے خاص طور پر نوجوانوں میں روحانی بیداری پیدا کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔
تعلیم ایک ایسا موضوع تھا، جوان کے دل کے بہت قریب تھا۔ ودیادھر (ان کا بچپن کا نام) سے ودیاساگر تک کا ان کا سفر علم کے حصول اور اس کی ترویج کے لیے ان کے پختہ عزم اور گہری وابستگی میں شامل تھا۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ تعلیم ایک منصفانہ اور روشن خیال معاشرے کی بنیاد ہے۔ انہوں نے علم کو، افراد کو بااختیار بنانے اور ایک با مقصد اور تعاون پر مبنی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے ایک وسیلے کےطور پر فروغ دیا۔ ان کی تعلیمات نے خود مطالعہ کرنے اور خود آگاہی حاصل کرنے کو حقیقی حکمت کا راستہ قرار دیا اوراپنے پیروکاروں کو زندگی بھر سیکھنے اور روحانی فروغ کے لئے کوشاں رہنے پر زور دیا۔
اس کے ساتھ ہی، سنت شرومنی آچاریہ ودیاساگر جی مہاراج جی چاہتے تھے کہ ہمارے نوجوان ایسی تعلیم حاصل کریں، جس کی جڑیں ہماری ثقافتی اقدار میں پیوست ہوں۔ وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ ماضی کی تعلیمات سے بھٹک جانے کی وجہ سے ہی ہم پانی کی قلت جیسے کلیدی چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ایک جامع تعلیم وہ ہے، جو مہارت اور اختراع پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے لسانی تنوع پر بے حد فخر کیا اور نوجوانوں کو ہندوستانی زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔
پوجیہ آچاریہ جی نے بذات خود سنسکرت، پراکرت اور ہندی میں بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔ ایک سنت کے طور پر وہ جن بلندیوں پر پہنچے، اور بنیادی سطح پر وہ کس قدر مضبوط تھے، یہ ان کی مشہور تصنیف ‘مک متی’ میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ذریعے مظلوموں کو آواز فراہم کی۔
حفظان صحت کے شعبے میں بھی، پوجیہ آچاریہ جی کا تعاون زبردست تبدیلی پیدا کرنے والا تھا۔ انہوں نے متعدد کوششیں کیں ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یہ خدمات دستیاب نہیں تھیں۔ حفظان صحت کے تئیں ان کا نقطہ نظرجامع اور جسمانی تندرستی کے ساتھ ساتھ روحانی تندرستی کو مربوط کرنے والا تھا،جس سے کسی بھی شخص کی تمام ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
میں خاص طور پر آنے والی نسلوں سے سنت شرومنی آچاریہ شری ودیاساگر جی مہاراج جی کی قوم کی تعمیر کے لئے اُن کے عزم کے بارے میں جامع مطالعہ کرنے پر زور دیتا ہوں۔ انہوں نے لوگوں کو ہمیشہ ہرقسم کے تعصب سے اوپر اٹھنے اور قومی مفاد پر توجہ مرکوز کرنے کی تلقین کی۔ وہ ووٹ دینے کے سب سے مضبوط حامیوں میں سے ایک تھے، کیونکہ وہ اسے جمہوری عمل میں اپنی شرکت کے اظہار کے طور پر دیکھتے تھے۔ انہوں نے صحت مند اور صاف ستھری سیاست کی وکالت کی، یہاں تک کہ وہ یہ کہتے تھے کہ پالیسی سازی لوگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں ہونی چاہئے، خود کے مفادکے لئے نہیں (لوک نیتی، لوک سنگرہ کے بارے میں ہے ، لوبھ سنگرہ کے بارے میں نہیں)۔
ان کا ماننا تھا کہ ایک مضبوط قوم کی تعمیر، اس کے شہریوں کی اپنے فرائض— اپنے تئیں ، اپنے خاندان، معاشرے اورملک کے تئیں فرائض کے عہد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ انہوں نے لوگوں کو دیانتداری، ایمانداری اورخود انحصاری جیسی خوبیاں پیدا کرنے کی ترغیب دی، جسے وہ ایک انصاف پسند، ہمدرد، اورفروغ پذیرمعاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ فرائض کی ادائیگی پر یہ زور بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہم وِکست بھارت کی تعمیر کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ایک ایسے دور میں، جہاں پوری دنیا میں ماحولیاتی انحطاط جاری ہے، پوجیہ آچاریہ جی نے ایک ایسے طرز زندگی پر زور دیا، جس سے فطرت کو پہنچنے والا نقصان کم سے کم ہوسکے۔ اسی طرح، انہوں نے ہماری معیشت میں زراعت کے اہم کردار کا مشاہدہ کیا اور زراعت کو جدید اور پائیدار بنانے پر بھی زور دیا۔ جیل کے قیدیوں کی اصلاح کے لیے بھی ان کا کام قابل ذکر ہے۔
ہماری سرزمین کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے ہماری مٹی نے ایسے عظیم لوگ پیدا کیے، جنہوں نے دوسروں کو روشنی دکھائی اور ہمارے معاشرے کو بہتر بنایا۔ پوجیہ آچاریہ جی سنتوں اور سماجی مصلحین کے اس مثالی سلسلے میں ایک عظیم شخصیت کے طور پر شامل ہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا، وہ صرف حال کے لیے نہیں،بلکہ مستقبل کے لیے بھی کیا۔ پچھلے سال نومبر میں، مجھے چھتیس گڑھ کے ڈونگر گڑھ میں چندر گیری جین مندر جانے کا موقع ملا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دورہ پوجیہ آچاریہ جی سے میری آخری ملاقات ہوگی۔ وہ لمحات بہت خاص تھے۔ انہوں نے مجھ سے دیر تک بات کی، قوم کی خدمت میں میری کوششوں کے لیے مجھے آشیرواد دیا۔ انہوں نے ، جس سمت ہمارا ملک چل رہا ہے، اور جس طرح دنیا میں بھارت احترام حاصل کر رہا ہے، اس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ وہ اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے بہت پُرجوش تھے۔ اس وقت اور ہمیشہ، ان کی محبت بھری نظریں اور پرسکون مسکراہٹ، امن اور مقصد کا احساس پیدا کرنے کے لیے کافی تھیں۔ ان کا آشیرواد، جو ہمارے اندر اور ارد گرد روحانیت کی موجودگی کی یاد دہانی کراتا ہے، روح پر ورسکون کی طرح محسوس ہوا۔
سنت شرومنی آچاریہ شری 108 ودیاساگر جی مہاراج جی کے خلاء کو، ان تمام لوگوں نے، جو انہیں جانتے تھے، اور ان کی تعلیمات اور ان کی زندگی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے، بہت گہرائی سےمحسوس کیا ہے۔ البتہ وہ ان تمام لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ ہیں، جنہیں انہوں نے متاثر کیاہے۔ ان کی یاد کا احترام کرتے ہوئے، ہم ان اقدار کواپنانے کا عہد کرتے ہیں، جن پر انہوں نے ہمیشہ زور دیا۔ اس طرح ہم نہ صرف ایک عظیم روح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، بلکہ اپنے ملک اور اپنے عوام کے لیے ان کے مشن کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔