Bharat Express

PM Modi’s Sadhna’s in Kanyakumari: کنیا کماری میں سادھنا سے نمودار ہوئے نئے عزائم

سوامی وویکانند نے 1897 میں کہا تھا کہ ہمیں اگلے  50 سال صرف قوم کے لیے وقف کرنے ہوں گے۔ ان کی اس اپیل کے ٹھیک 50 سال بعد، ہندوستان 1947 میں آزاد ہوگیا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے کنیا کماری میں وویکانند راک میموریل میں مراقبہ کیا۔

میرے پیارے ہم وطنو! جمہوریت کی ماں میں جمہوریت کے سب سے بڑے تہوار کا ایک سنگ میل آج یکم جون کو مکمل ہو رہا ہے۔ کنیا کماری میں تین دن کے روحانی سفر کے بعد، میں ابھی دہلی کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوا ہوں… کاشی اور دیگر کئی سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ بہت سارے تجربات ہیں، بہت سارے احساسات ہیں … میں اپنے اندر لامحدود توانائی کا بہاؤ محسوس کررہا ہوں۔

درحقیقت  2024 کے اس الیکشن میں کئی خوش گوار اتفاقات سامنے آئے ہیں۔ امرت کال کے اس پہلے لوک سبھا انتخاب میں، میں نے میرٹھ سے مہم کا آغاز کیا، جو 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی جائے تحریک ہے۔ ماں بھارتی کی پریکرما کے دوران اس الیکشن کا میرا آخری عوامی جلسہ پنجاب کے ہوشیار پور میں ہوا۔ سنت روی داس جی کی مقدس سرزمین، ہمارے گروؤں کی زمین پنجاب میں آخری جلسہ منعقد کرنے کا اعزاز بھی بہت خاص ہے۔ اس کے بعد مجھے کنیا کماری میں بھارت ماتا کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان ابتدائی لمحات میں میرے ذہن میں انتخابات کا شور گونج رہا تھا۔ جلسوں اور روڈ شوز میں نظر آنے والے ان گنت چہرے میری آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بے پناہ محبت کی وہ لہر، ان کا آشیرواد … ان کی آنکھوں میں میرے لیے وہ بھروسہ، وہ پیار … میں سب کچھ اپنے اندر سمو رہا تھا۔ میری آنکھیں نم ہو رہی تھیں… میں خالی پن میں جا رہا تھا، دھیان میں داخل ہو رہا تھا۔

چند لمحوں میں سیاسی بحثیں، حملے اور جوابی حملے… الزامات کی آوازیں اور الفاظ، یہ سب خود بخود معدوم ہوتے چلے گئے۔ میرے ذہن میں لاتعلقی کا احساس مزید شدید ہو گیا… میرا دماغ بیرونی دنیا سے بالکل الگ ہوگیا۔

اتنی بڑی ذمہ داریوں کے درمیان ایسی سادھنا مشکل ہے، لیکن کنیا کماری کی سرزمین اور سوامی وویکانند کی ترغیب نے اسے آسان بنا دیا۔ میں یہاں ایم پی کے طور پر اپنا انتخاب اپنے کاشی کے ووٹروں کے قدموں میں چھوڑ کر آیا تھا۔

میں خدا کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے پیدائش سے ہی یہ سنسکار دیے۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ سوامی وویکانند جی نے اس مقام پر سادھنا کرتے ہوئے کیا تجربہ کیا ہوگا! میری سادھنا کا کچھ حصہ اسی طرح کے خیالات کے بہاؤ میں بہہ گیا۔

اس لاتعلقی کے درمیان، امن اورخاموشی کے درمیان، میرے ذہن میں ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے، ہندوستان کے مقاصد کے لیے خیالات مسلسل اُمنڈ  رہے تھے۔ کنیا کماری کے اُگتے ہوئے سورج نے میرے خیالات کو نئی بلندیاں دیں، سمندر کی وسعت نے میرے خیالات کو وسعت دی اوراُفق کے پھیلاؤنے کائنات کی گہرائیوں میں سمائی ہوئی وحدت نے مجھے ایک ہونے کا مسلسل احساس دیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہمالیہ کی گود میں کئی دہائیوں پہلے کیے گئے غوروفکراورتجربات دوبارہ زندہ ہو رہے ہوں۔

ساتھیو،

کنیا کماری کی یہ جگہ ہمیشہ میرے دل کے بہت قریب رہی ہے۔ کنیا کماری میں وویکانند راک میموریل کی تعمیرجناب ایکناتھ رانڈے جی نے کرائی تھی۔ مجھے ایکناتھ جی کے ساتھ کافی سفرکرنے کا موقع ملا تھا۔ اس یادگارکی تعمیرکے دوران کچھ وقت کنیا کماری میں رہنا اوروہاں آنا جانا فطری طورپرہوتا تھا۔

کشمیرسے کنیا کماری… یہ ہماری مشترکہ شناختیں ہیں، جوملک کے ہرفرد کے دل میں سمائی ہوئی ہیں۔ یہ وہ شکتی پیٹھ ہے، جہاں ماں شکتی نے کنیا کماری کی شکل میں اَوتارلیا تھا۔ اس جنوبی سرے پرماں شکتی نے ان بھگوان شیو کے لیے تپسیا کی اورانتظارکیا جو ہندوستان کے سب سے شمالی سرے کے ہمالیہ پربراجمان رہے تھے۔

کنیا کماری سنگموں کے سنگم کی سرزمین ہے۔ ہمارے ملک کی مقدس ندیاں الگ الگ سمندروں میں جاکرملتی ہیں اوریہاں ان سمندروں کا سنگم ہوتا ہے۔ اور یہاں ایک اورعظیم سنگم نظرآتا ہے– ہندوستان کا نظریاتی سنگم!

وویکانند راک میموریل کے ساتھ ہی، یہاں پر سنت تھروولوور کا عظیم مجسمہ، گاندھی منڈپم اور کامراجر منی منڈپم ہیں۔ عظیم ہیروز کے خیالات کے یہ دھارے یہاں قومی سوچ کا سنگم بناتے ہیں۔ اس سے قوم کی تعمیر کے لیے عظیم تحریکات کا جنم ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جو ہندوستان کے ایک قوم ہونے اور ملک کے اتحاد پر شک کرتے ہیں، کنیا کماری کی یہ سرزمین اتحاد کا انمٹ پیغام دیتی ہے۔

کنیا کماری میں سنت تھروولوور کا عظیم مجسمہ، سمندر سے ماں بھارتی کے پھیلاؤ کو دیکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بناوٹ ’تھروکورل‘ تمل ادب کے جواہرات سے جڑے تاج کی مانند ہے۔ اس میں زندگی کے ہر پہلو کو بیان کیا گیا ہے، جو ہمیں اپنے اور قوم کے لیے اپنا بہترین دینے کی تحریک دیتا ہے۔ ایسی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنا میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے۔

ساتھیو،

سوامی وویکانند جی نے کہا تھا – ہر قوم کے پاس پہنچانے کے لیے ایک پیغام ہے، پورا کرنے کے لیے ایک مشن ہے، پہنچنے کے لیے ایک منزل ہے۔

ہندوستان اس جذبے کے ساتھ ہزاروں سالوں سے ایک بامعنی مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان ہزاروں سالوں سے نظریات کی تحقیق کا مرکزرہا ہے۔ ہم نے جوکچھ کمایا ہے، اسے کبھی بھی اپنا ذاتی سرمایہ نہیں سمجھا گیا اوراسے کبھی معاشی یا مادی معیارات پرنہیں تولا۔ یہی وجہ ہے کہ ’اِدہ نہ مم‘ ہندوستان کے کردارکا ایک فطری حصہ بن گیا ہے۔

ہندوستان کی فلاح سے دنیا کی فلاح، ہندوستان کی ترقی سے دنیا کی ترقی، اس کی ایک بڑی مثال ہماری تحریک آزادی بھی ہے۔ ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک غلامی میں تھے۔ ان ممالک کو بھی ہندوستان کی آزادی سے تحریک اور طاقت ملی، انہوں نے آزادی حاصل کی۔ ابھی کورونا کے مشکل دورکی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جب غریب اور ترقی پذیر ممالک کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا، لیکن ہندوستان کی کامیاب کوششوں سے بہت سے ممالک کو حوصلہ اور تعاون بھی ملا۔

آج ہندوستان کا گورننس ماڈل دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔ صرف 10 سالوں میں 25 کروڑ لوگوں کو غریبی سے نکالنا بے مثال ہے۔ پرو- پیپل گڈ گورننس، اسپیریشنل ڈسٹرکٹ، اسپیریشنل بلاک جیسے نئے تجربات آج دنیا میں زیر بحث ہیں۔ غریبوں کو بااختیار بنانے سے لے کر آخری میل ڈیلیوری تک، معاشرے کے آخری صف میں کھڑے فرد کو ترجیح دینے کی ہماری کوششوں نے دنیا کو تحریک دی ہے۔ ہندوستان کی ڈیجیٹل انڈیا مہم آج پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ کس طرح ہم غریبوں کوبااختیاربنانے، شفافیت لانے اورانہیں ان کے حقوق دلانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ بھارت میں سستا ڈیٹا آج اطلاعات وخدمات تک غریبوں کی رسائی کو یقینی بنا کرسماجی برابری کا وسیلہ بن رہا ہے۔ پوری دنیا ٹیکنالوجی کی اس جمہوریت کاری کو تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے اور بڑی عالمی تنظیمیں بہت سے ممالک کو ہمارے ماڈل سے سیکھنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔

آج ہندوستان کی ترقی اور ہندوستان کا عروج صرف ہندوستان کے لیے ہی بڑا موقع نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا کے تمام ہم سفر ممالک کے لیے بھی ایک تاریخی موقع ہے۔ جی- 20 کی کامیابی کے بعد دنیا بھارت کے اس کردار کو زیادہ کھل کر قبول کر رہی ہے۔ آج ہندوستان کو گلوبل ساؤتھ کی ایک مضبوط اور اہم آواز کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی پہل ہی افریقی یونین جی- 20 گروپ کا حصہ بنا۔ یہ سبھی افریقی ممالک کے مستقبل کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے۔

ساتھیو،

نئے ہندوستان کی یہ شکل ہمیں فخر اور شان سے بھر دیتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ 140 کروڑ ہم وطنوں کو ان کے فرائض کا بھی احساس کراتی ہے۔ اب ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر ہمیں بڑی ذمہ داریوں اور بڑے اہداف کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ ہمیں نئے خواب دیکھنے ہیں۔ اپنے خوابوں کو اپنی زندگی بنانا ہے، اور ان خوابوں کو جینا شروع کرنا ہے۔

ہمیں ہندوستان کی ترقی کو عالمی تناظر میں دیکھنا ہوگا، اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہندوستان کے باطن میں پوشیدہ صلاحیت کو سمجھیں۔ ہمیں ہندوستان کی طاقتوں کوقبول بھی کرنا ہوگا، انہیں مضبوط بھی کرنا ہوگا اور دنیا کے مفاد میں ان کا بھرپور استعمال بھی کرنا ہوگا۔ آج کے عالمی حالات میں، ایک نوجوان قوم کے طورپرہندوستان کی صلاحیت ہمارے لیے ایک ایسا خوشگواراتفاق اورموقع ہے، جہاں سے ہمیں پیچھے مڑکرنہیں دیکھنا ہے۔

آج 21ویں صدی کی دنیا بڑی امیدوں کے ساتھ ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اورعالمی منظرنامے میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں بہت سی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ ہمیں اصلاحات کے حوالے سے اپنی روایتی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا۔ ہندوستان اصلاحات کو صرف اقتصادی تبدیلیوں تک محدود نہیں رکھ سکتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہماری اصلاحات بھی 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کے عزائم کے مطابق ہونی چاہئیں۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اصلاحات کبھی بھی کسی ملک کے لیے یک رُخی عمل نہیں ہوسکتیں۔ اسی لیے، میں نے ملک کے لیے ریفارم، پرفارم اورٹرانسفارم کا وژن سامنے رکھا۔ اصلاحات کی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہماری بیوروکریسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور پھر جب عوام اس سے جڑ جاتے ہیں تو ہم تبدیلی ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں۔

ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ہندوستان بنانے کے لیے ہمیں عمدگی کو اپنی بنیادی قدر بنانا ہوگا۔ ہمیں اسپیڈ، اسکیل، اسکوپ اور اسٹینڈرڈز،  چاروں سمتوں میں تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ کوالٹی پر بھی زور دینا ہوگا، ہمیں زیرو ڈیفیکٹ- زیرو ایفیکٹ کے اصول کو اپنانا ہوگا۔

ساتھیو،

ہمیں ہرلمحہ اس بات پرفخرہونا چاہئے کہ خدا نے ہمیں ہندوستان کی سرزمین میں جنم دیا ہے۔ خدا نے ہمیں ہندوستان کی خدمت کرنے اوراس کے بلندی کے سفرمیں اپنا کردارادا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔

ہمیں قدیم اقدارکوجدید شکل میں اپناتے ہوئے اپنے ورثے کوجدید اندازمیں نئی ​​شکل دینا ہے۔

ہمیں بحیثیت قوم بھی اپنی فرسودہ سوچ اورعقائد پرنظر ثانی بھی کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے معاشرے کو پیشہ وارانہ مایوسیوں کے دباؤ سے آزاد کرنا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ منفی ذہنیت سے آزادی، کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے پہلی جڑی بوٹی ہے۔ کامیابی مثبت ذہنیت کی گود میں ہی پنپتی ہے۔

ہندوستان کی لامحدود اور لافانی طاقت پرمیرا ایمان، عقیدت اوریقین بھی دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے پچھلے 10 سالوں میں ہندوستان کی اس صلاحیت کو زیادہ بڑھتے دیکھا ہے اور زیادہ محسوس کیا ہے۔

جس طرح ہم نے 20ویں صدی کی چوتھی- پانچویں دہائی کو اپنی آزادی کے لیے استعمال کیا، اسی طرح ہمیں 21ویں صدی کے ان 25 سالوں میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ جنگ آزادی کے دوران وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینے کا وقت تھا۔ آج قربانی کا وقت نہیں بلکہ مسلسل تعاون کا وقت ہے۔

سوامی وویکانند نے 1897 میں کہا تھا کہ ہمیں اگلے  50 سال صرف قوم کے لیے وقف کرنے ہوں گے۔ ان کی اس اپیل کے ٹھیک 50 سال بعد، ہندوستان 1947 میں آزاد ہوگیا۔

آج ہمارے پاس ایسا سنہری موقع ہے۔ آیئے آئندہ 25 سال صرف قوم کے لیے وقف کریں۔ ہماری یہ کوششیں آنے والی نسلوں اور آنے والی صدیوں کے لیے نئے ہندوستان کی مضبوط بنیاد کے طور پر لازوال رہیں گی۔ میں ملک کی توانائی کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ ہدف اب دور نہیں ہے۔ آئیے، تیز قدموں سے چلیں … مل کر چلیں اور ہندوستان کو ترقی یافتہ بنائیں۔

*****

یہ خیالات وزیر اعظم مودی نے یکم جون کو شام 4:15 سے شام 7 بجے کے درمیان کنیا کماری سے دہلی واپسی کی پرواز کے دوران قلم بند کیے تھے۔

Also Read