Bharat Express

Asaduddin Owaisi on same-sex marriage: ہم جنس شادی پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اسد الدین اویسی نے کہا، صرف مرد اور عورت کے درمیان ہو سکتی ہے شادی

اویسی نے لکھا، “میں جسٹس بھٹ سے اتفاق کرتا ہوں کہ اسپیشل میرج ایکٹ کی صنفی غیر جانبدار تشریح بعض اوقات جائز نہیں ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین کے لیے غیر ارادی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔”

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ہم جنس شادی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اویسی نے ایکس پر ایک پوسٹ کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے پارلیمانی بالادستی کے اصول کو برقرار رکھا ہے۔ یہ طے کرنا عدالتوں کا کام نہیں کہ کون کس قانون کے تحت شادی کرے گا۔

سبھی پر مسلط نہیں کر سکتی حکومت

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے مزید کہا، “میرا ایمان اور میرا ضمیر کہتا ہے کہ شادی صرف ایک مرد اور عورت کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ 377 کے کیس کی طرح جرم کو ختم کرنے کا سوال نہیں ہے، یہ شادی کو تسلیم کرنے کا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت اسے کسی ایک اور سبھی پر مسلط نہیں کر سکتی۔

 

اسدالدین اویسی نے پوسٹ میں لکھا، “میں بنچ کے اس تبصرہ سے پریشان ہوں کہ ٹرانسجینڈر لوگ اسپیشل میرج ایکٹ اور پرسنل لاء کے تحت شادی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو یہ صحیح تشریح نہیں ہے کیونکہ اسلام دو حیاتیاتی مردوں یا دو حیاتیاتی عورتوں کے درمیان شادی کو تسلیم نہیں کرتا۔

اویسی نے لکھا، “میں جسٹس بھٹ سے اتفاق کرتا ہوں کہ اسپیشل میرج ایکٹ کی صنفی غیر جانبدار تشریح بعض اوقات جائز نہیں ہوسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین کے لیے غیر ارادی خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔”

واضح رہے کہ ہم جنس پرست شادی سے متعلق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، پی ایس نرسمہا، ہما کوہلی اور ایس رویندر بھٹ کی آئینی بینچ نے فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے ہم جنس اورہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے 20 درخواستیں دائرکی گئی تھیں۔ اب بینچ نے اس معاملے کو اسپیشل میریج ایکٹ 1954 تک محدود رکھتے ہوئے کلیئرکردیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ وہ ہندو میرج ایکٹ یا پرسنل لازسے نمٹ نہیں سکتی۔ اس معاملے میں 11 مئی 2023 کو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔