اردو زبان کی امریکی ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ
ڈاکٹر سیّد سلیمان اختر
مارگریٹ میکلاؤڈ لندن انٹرنیشنل میڈیا ہب میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ امریکی محکمہ خارجہ کی اردو۔ہندی ترجمان بھی ہیں۔ اس باوقار عہدے پر فائز ہونے سے پیشترمیکلاؤڈ نے نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے میں عوامی سفارت کاری کے فرائض انجام دیے۔نئی دہلی سے پہلے وہ جاپان اور پاکستان کے امریکی سفارت خانوں میں طعینات تھیں۔ سفارت کاری کا ان کا کریئر ۱۵ برسوں پر محیط ہے۔ سفارت کاری سے پیشتر انہوں نے بروکِنگ انسٹی ٹیوشن میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور کام کیا۔
میکلاؤڈ کے پاس کولمبیا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے عالمی معیشت میں بیچلر کیا ۔ وہ روٹری اسکالر کی حیثیت سے دہلی اسکول آف اکانومکس سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔ وہ ہندی اور اردو بول اور پڑھ سکتی ہیں۔ میکلاؤڈ اردو اور ہندی زبانوں کے علاوہ گجراتی ، جاپانی اور فرانسیسی زبانوں پر بھی عبور رکھتی ہیں۔ عالمی یومِ اردو کی مناسبت سے اسپَین نے ان سے کئی معاملات پر بات چیت کی۔ پیش ہیں ان سے انٹرویو کے بعض اقتباسات۔
لندن انٹرنیشنل میڈیا ہب میں امریکی وزارت ِ خارجہ کی اردو۔ہندی ترجمان کی حیثیت سے اپنے کام میں بارے میں بتائیں۔
میں لندن انٹرنیشنل میڈیا ہب میں ترجمانی کا کام کرتی ہوں۔میں لندن میں امریکی محکمہ خارجہ کی اردو۔ہندی ترجمان کےعہدے پر فائز ہوں۔ یعنی میں ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے امریکی سرکارکی سفارتی پالیسی سے اردو اور ہندی بولنے والوں کو باخبر کرتی ہوں۔ جو صحافی ہماری پالیسی سے اردو دنیا کو واقف کرانے کے خواہشمند ہیں ، میں ان کی اس کام میں مدد کرتی ہوں۔
آپ کو ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے میں کیا دشواریاں پیش آئیں اورآپ نے کس طرح ان کا مقابلہ کیا؟
شاید سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے ذرائع ابلاغ کا دائرہ نہایت وسیع ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میں مختلف ذرائع ابلاغ اور میڈیا اداروں کے بارے میں ابھی بھی معلومات یکجا کر رہی ہوں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بھارتی عوام آگاہ رہنا پسند کرتے ہیں ۔ اس دلچسپی کے نتیجے میں ان کمپنیوں کو کام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ سے وسائل مل سکتے ہیں۔
آپ کی نظر میں کیا کواڈ ہند۔بحرالکاہل خطے میں ایک فیصلہ کن اور واضح کردارادا کرسکتا ہے؟ اگلا کواڈ چوٹی اجلاس آئندہ برس بھارت میں منعقد ہونے والا ہے۔ کیا آپ توقع کرتی ہیں کہ کواڈ کے اس چوٹی اجلاس کے نتیجے میں ایک کھلا، مستحکم، خوش حال، شمولیت والا اورمضبوط ہند۔ بحرالکاہل خطہ وجود میں آئے گا؟
یقیناً! اگرآپ کو یاد ہو توامسال۲۰مئی کو ہیروشیما میں منعقد کواڈ چوٹی اجلاس کے بعد جواعلامیہ جاری ہوا تھا، اس میں اسی امرپرمہرثبت کی گئی تھی۔ بلاشبہ کواڈ کا مقصد ِعین ہند۔بحرالکاہل خطے میں ترقی، استحکام اورخوشحالی کو یقینی بنانا ہے تاکہ یہاں کے لوگوں، بلکہ اس خطےسے پرے لوگوں کا بھی فائدہ ہو۔ اراکین ممالک کی ان بلند نظرکاوشوں میں بعض بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں، جن میں خاص طورپربنیادی ڈھانچے، بحری سلامتی، عوامی۔ نجی شراکت داری، ماحولیات، صحت، اہم اورابھرتی ٹیکنالوجیاں اورخلائی تحقیق قابلِ ذکرہیں۔ کواڈ نے جن کثیرالجہات میدانوں میں اپنےعزم کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے یہ صاف ظاہرہوتا ہے۔
کواڈ کا مقصد صرف ہند۔بحرالکاہل خطے میں استحکام اورخوش حالی پیدا کرنے، نیزامن قائم کرنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر انہیں میدانوں میں اپنی خدمات انجام دینا بھی ہے۔
ہند۔بحرالکاہل خطے میں دنیا کے ۶۵ فی صد ممالک موجود ہونے کے ساتھ یہیں سمندربھی ہیں۔ خطے کا تمام ترانحصارمال اورافراد کے نقل و حمل پرہے۔ اس میں روزگارکے سلسلے میں انسانی آمدو رفت بھی شامل ہے۔ کواڈ نے بحری سلامتی بیداری میں اضافے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔
ہند بحرالکاہل خطے کے ممالک نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔ یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلی کا بھی مرکز ہے۔ شاید اسی لیے اس خطے میں ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ منفی اثرات نظر آتے ہیں۔ کواڈ کا مقصد ہے کہ اس خطے کے ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی سے ہورہی تباہی کو جس حد تک ہو کم کیا جا سکے اور خطے کے ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنے کی طاقت بھی پیدا کی جائے۔
اب جب کہ دنیا کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں اسی قسم کے مسائل پر عبور حاصل کرنے کی تیاری کررہی ہے تو اس پس منظر میں کواڈ ہند۔ بحرالکاہل خطے میں صحت سلامتی پر اپنی توجہ مرکوزکیے ہوئے ہےتاکہ مستقبل میں ہونے والے صحت کے کسی بحران سے بخوبی نمٹا جا سکے۔
خلائی تحقیق کے میدان میں دلچسپی بڑھنے کے ساتھ کواڈ ممالک خلامیں شہری اور تجارتی سرگرمیوں میں باہمی تعاون کررہے ہیں ۔ ان ممالک میں ماحولیات اور خلا کے سلسلے میں معلومات کی شراکت داری بھی ہورہی ہے ۔
میں آپ کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ امریکی حکومت اور کواڈ قائدین ہمارے کواڈ شرکاء کے ساتھ خوش حال ہند۔ بحرالکاہل خطے کے لیے پر عزم ہیں
تاکہ خطے کے عوام کی زندگیاں بہتر ہوں۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں نہ صرف حال بلکہ مستقبل میں بھی اس خطے کی معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔
امریکی پالیسی اہداف کی تکمیل کے لیے اردو میڈیا ہاؤس کی شناخت کرنے اور ان سے رابطہ سازی میں آپ کا کردار کتنا اہم ہے؟
میں ابھی بھی سیکھ رہی ہوں۔ بنیادی طور پر میرا خیال ہے کہ مجھے بڑے میڈیا ہاؤس کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ میں ان کے توسط سے زیادہ سے زیادہ اردو بولنے والوں تک رسائی حاصل کرسکوں۔ مگر معاملہ یہ بھی ہے کہ ملک کے بڑے میڈیا ہاؤس ہندی اور انگریزی زبانوں کے ہیں ۔ اور میں ان لوگوں تک پہنچنا چاہتی ہوں جن کی معلومات کا ذریعہ انگریزی اخبارات نہیں ۔ تو میں اس سلسلے میں ایک توازن قائم کرنا چاہتی ہوں اور ابھی میں یہی کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
میں جانتی ہوں کہ کبھی کبھار امریکہ اور اردو بولنے والوں کے نقطہ نظرمیں فرق ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کئی معاملوں میں خود اردو بولنے والوں کے درمیان الگ الگ نقطہ نظر ہوتا ہے ۔ لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ خواہ اردو والے ہم سے متفق ہو ں یا نہ ہوں ، انہیں کم از کم امریکی سرکار کے نقطہ نظر کا علم تو ہو۔ کیوں کہ ان اداروں میں غلط فہمی آسانی کے ساتھ راہ بنا لیتی ہے ۔ اور میری کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔
لندن انٹرنیشنل میڈیا ہب بھارت کے اردو صحافیوں کو کس قسم کے وسائل مہیا کرواتا ہے؟
تین سہولتوں پر خاص توجہ دینا چاہتی ہوں:
یوایس اے اردو میں @ ایکس پر اور فیس بُک پر
https://www.facebook.com/USAUrdu/
جہاں حکومت امریکہ کے ذریعہ کیے گئے اعلانات پوسٹ کرتی ہوں تاکہ صحافیوں کو اردو زبان میں ہی ہماری پالیسیوں کی جانکاری مل جائے۔
https://www.state.gov/translations/urdu
پر ہم مزید طویل اعلانات وغیرہ پوسٹ کرتے ہیں۔
عالمی معاملات پرمیں براہ راست انٹرویو بھی دیتی ہوں، لیکن وہ صحافی جن کی دلچسپی دوطرفہ معاملات میں ہے تو ان کے تعلق سے یہ کہنا ہے کہ ان کے لیے جانکاری حاصل کرنے کے لیے سفارت خانہ بہترین جگہ ہے۔
اردو میں بات چیت کرنے میں آپ کے لیے سب سے زیادہ دشوار گزار کیا چیز نظر آتی ہے؟
ظاہر ہے کہ انگریزی بولنے والو ں کے لیے ’عین‘، ’غین‘ اور’خ‘ جیسی آوازیں نکالنا مشکل ہے، لیکن مشق کرکے ان کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اردو کے معاملے میں میں جملے کے ڈھانچے پر توجہ مرکوزکرتی ہوں۔ ابھی تک میں ان انگریزی جملوں سے اردو میں مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں جو میرے ذہن میں ترتیب پاتے ہیں ۔ اپنی اردو دانی میں بہتری کے لیے میں اپنے عملہ، سہیلیوں اور دوستوں کی جانب سے کی جانے والی اصلاح کے لیے ان کی بے حد مشکور ہوں۔
عالمی یومِ اردو کے موقع پر کیا آپ اردو کے اپنے سب سے پسندیدہ شاعر یا مصنف کے بارے میں بات کرنا چاہیں گی؟
اردو شعروادب سے میرا پہلا تعارف کولمبیا یونیورسٹی میں اس وقت ہوا، جب میں نے محترمہ فرانسس پریچیٹ کی کلاس کی۔ ان کی حیثیت میری زندگی میں کسی حد تک ایک رول ماڈل کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیرون ملک اردو سیکھی اوراردو زبان سے محبت کرنے لگیں۔ اگرآپ کوان کی ویب سائٹ دیکھنے کا موقع ملے توآپ کوعلم ہوگا کہ ان کا تعلق جنوبی ایشیائی زبان سے کتنا گہرا ہے۔ اہل ِزبان نہیں ہونے کے باوجود ان کی شخصیت میرے لیے مشعل راہ بنی۔ ان کا شمارماہرینِ غالب میں ہوتا ہے۔ میں نے انہی سے جانا کہ غالب ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے اوراردو میں ان کی حیثیت تاریخی نوعیت کی ہے۔ سچ کہوں تو’’اسٹڈی اَیبروڈ‘‘ پروگرام میرے لئے ایک زندگی تبدیل کرنے والا تجربہ ثابت ہوا۔
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی