نئی دہلی: مدار میں سیارچوں میں ازسر نو ایندھن پہنچانے کے ہدف سے لے کر کرۂ ارض کی صحت کی نگرانی تک،بھارتی اسٹارٹ اپ ادارے، خلائی شعبے میں مقتدر منڈیوں میں اپنے لیے معقول مقام اس امید کے ساتھ تلاش کر رہے ہیں کہ عالمی تجارتی اشتراک کا راستہ کھولا جائے اور اس کے توسط سے بڑے مواقع حاصل کیے جائیں۔ مذکورہ بالا باتیں ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ذریعہ آرٹیمس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نیز خلائی سائنس کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے خصوصاً کنٹرول اور تکنالوجی منتقلی سے متعلق موضوعات کا حل نکالنے کے لیے، وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران جو پہلو ابھر کر سامنے آئے اس سے نجی شعبوں، صنعتوں کے قائدین کو یہ یقین ہوا کہ ان کے لیے دروازے کھل جائیں گے۔ چونکہ 2020 میں بھارت نے خلائی شعبے کو کھول دیا تھا، تب سے 150 سے زائد اسٹارٹ اپ ادارے راکٹ سازی اور سیارچہ سازی، خلابازوں کے لیے تربیتی سہولتوں کی فراہمی اور خلائی سیاحت کے امکانات تلاش کرنے کے شعبوں میں سرگرم ہوگئے ہیں۔
اس تعلق سے منستو اسپیس کے معاون بانی تشار یادو نے بتایا کہ ”یہ ایک اچھی شروعات ہے کیونکہ امریکہ کے لیے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ وہ 10 ۔ 15 برس قبل خلاء یا دفاع سے متعلق کوئی تکنالوجی کسی کو سپلائی کرتا۔یہ ایک ممنوعہ شئے تھی۔ اب ہم اس ابھرتے ہوئے شعبے میں ایک ساتھ مل جل کر کام کرنے کے موضوع پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ”
خیال رہے کہ ممبئی میں قائم منستو سیارچوں کے لیے سبز پروپلزن نظام وضع کر رہا ہے اور اسے توقع ہے کہ وہ آئندہ برس ایک آزمائشی پرواز میں اپنی تکنالوجی کو جائز مقام دلا سکے گا۔ یہ خلاء میں ایک ایندھن اسٹیشن بھی وضع کر رہا ہے تاکہ مدار کے اندر سیارچوں کے اندر ازسر نو ایندھن کی فراہمی ہو سکے جو بصورت دیگر ایندھن ختم ہونے پر یعنی جب ان کے اندر فراہم کیا گیا ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو متروک قرار دے دیے جاتے ہیں۔
اسی سلسلے میں بھارتی خلائی ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹرجنرل لیفٹیننٹ جنرل اے کے بھٹ (سبکدوش) نے کہا ہے کہ خلائی شعبوں کی متعدد تکنالوجیاں دوہرے استعمال والی تکنالوجیاں ہوتی ہیں تاہم اس سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ اب اس کے لیے متعلقہ عمل کافی سہل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں حیدر آباد میں قائم اسکائی روٹ ایرو اسپیس نے اپنے وکرم ایس راکٹ کے کامیابی سے داغے جانے کے ساتھ خلائی شعبے کی تاریخ میں اپنا نام رقم کرایا۔ بھارت میں تیار ہونے والا یہ اولین نجی طور پر وضع کردہ خلائی راکٹ تھا اور یہ تعمیر اس کے قیام کے چار برس کے اندر عمل میں آیا تھا۔ اسرو کے سابق سائنس دانوں اور انجینئروں کے ذریعہ قائم کی گئی کمپنی اب چھوٹے سیارچوں کو مدار میں پہنچانے کے لیے وکرم سیریز کے راکٹوں کی تین مختلف شکلیں وضع کر رہی ہے۔
بھارتی قومی خلائی فروغ اور آتھرائزیشن مرکز (آئی این۔ اسپیس)کے چیئرمین پون گوئنکا نے بتایا کہ نجی شعبے کے ذریعہ جس نوعیت کا کام کیا جا رہا ہے وہ اسرو کے ذریعہ کیے گئے کام کی ہوبہو نقل نہیں ہے۔ اسکائی روٹ اور اگنی کُل کے ذریعہ وضع کی گئی سیارچہ داغنے کی گاڑیاں اپنی انفرادیت کی حامل ہیں۔ سیارچہ کےاستعمالات مخصوص مقام کے حامل ہوتے ہیں اور تکنالوجی کے لحاظ سے جدید ترین تکنالوجی کے حامل ہیں۔
گذشتہ برس چنئی میں قائم اگنی کُل کاسماس نے اپنے ذاتی لانچ پیڈ کا افتتاح سری ہری کوٹہ میں واقع ستیش دھون اسپیس مرکز کے احاطے کے اندر کیا جہاں سے اسرو خلائی سیارچوں کو داغنے کا کام انجام دیتا ہے۔
چونکہ خلائی تکنالوجی اور خلائی اعداد و شمار کے لیے طلب بھارت میں بہت کم ہے، گھریلو شراکت داران اپنی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں تلاش کر رہے ہیں۔
مسٹر گوئنکا نے اپنے سیارچوں سے ہائپر اسپیکٹرل امیجری کی سپلائی کے سلسلے میں امریکی قومی احیاء دفتر سے حاصل کردہ بنگلورو کے پکسیل کے ذریعہ کیے گئے پانچ برس کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کچھ کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں سے کچھ آرڈر مل رہے ہیں۔ ایک دوسری بڑی بات یہ ہے کہ یہ چیز عملی طور پر ممکن ہو رہی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بھارت میں خلائی معیشت 2020 میں عالمی خلائی معیشت کے مقابلے میں مجموعی طور پر 2.1 فیصد کے بقدر تھی یعنی یہ معیشت 9.6 بلین امریکی ڈالر کے بقدر تھی جو ملک میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)کے بالمقابل 0.4 فیصد کے بقدر تھی۔
سائنس اور تکنالوجی کے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے اس بابت بتایا کہ ”وزیر اعظم نریندر مودی نے ماضی کے ممنوعہ طرز عمل سے انحراف کیا اور خلائی تکنالوجی کو نجی شعبے کے لیے کھول دیا۔ تین برسوں کی مدت کے اندر ہم نے 150 سے زائد اسٹارٹ اپ ادارے قائم کیے۔ اس میں سے چند اپنی نوعیت کے اولین ادارے ہیں۔ یہ بات عالمی پیمانے پر تسلیم کی جا رہی ہے ”۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اب بھارت کو خلائی شعبے میں مساوی شراکت دار تسلیم کرتا ہے۔ 50 برس قبل معاملہ اس کے برعکس تھا جب ہر ملک خلائی شعبے میں امریکہ کی جانب سے حاصل ہونے والی امداد کی جانب دیکھا کرتا تھا۔