جماعت اسلامی ہند کی ماہانا پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے نائب امیر انجینئر محمد سلیم ودیگر۔
رام مندرکے افتتاح کی تیاریوں کے درمیان ایک طرف برسراقتدار سیاسی پارٹی کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں اورملی ومذہبی تنظیموں کی جانب سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ اسی ضمن میں جماعت اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ رام مندرکے افتتاح سے پورے ملک میں سیاسی پروپیگنڈہ اورانتخابی منافع کمانے کا ذریعہ بنانا انتہائی مایوس کن ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کا استعمال سیاسی مقاصد اورپولرائزیشن کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیرجماعت انجینئرمحمد سلیم نے کہا کہ رام مندرافتتاح کی مذہبی تقریب اس بات کی واضح مثال ہے کہ کیسے کچھ سیاست دان مذہب کا غلط استعمال سیاسی فائدے کے لئے کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر حکمراں جماعت کی طرف سے تنقید کی جاتی رہی، لیکن اب وہ خود اس میں بے دھڑک شامل ہورہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا افتتاح ’’ بی جے پی کا ’انتخابی پروگرام‘ اوروزیراعظم کی ’’سیاسی ریلی‘‘ میں بدل گیا ہے۔ اگراس افتتاحی تقریب کا انتظام ’مندرٹرسٹ‘ کی طرف سے کیا جاتا توحالات مختلف ہوسکتے تھے۔ اس موقع پرسکریٹری محمد احمد، سکریٹری خلیق الرحمٰن اوراموراوقاف کے ذمہ دارانعام الرحمٰن بھی موجود تھے۔ انجینئرمحمد سلیم نے کہا کہ رام مندر کے افتتاح کے موقع پر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اورمنتخب نمائندوں کو کہا جانا چاہئے تھا کہ وہ اس پروگرام سے دوررہیں۔ بالفاظ دیگر کوئی تنازعہ ہی نہ ہوتا اگراس افتتاح کو بغیرکسی سیاسی تقاریر، پوسٹرزاورنعروں کے صرف ’’مذہبی تقریب‘‘ تک محدود رکھا جاتا۔ ’شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیترٹرسٹ‘ کے جنرل سکریٹری نے تورام مندرکے اس افتتاحی پروگرام کا موازنہ یوم آزادی سے کردیا جوکہ غلط اورتکلیف دہ ہے۔ یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پرتقسیم کرنے والا ہے، لہٰذا جماعت ایسی تشریحات کی مذمت کرتی ہے اوربرسراقتدارسے انہیں اپنے عہدے کے حلف کی پاسداری اورآئین و قوانین کو برقراررکھنے کی گزارش کرتی ہے۔
ہندوستان بنتا جا رہا ہے ایک غیرلبرل جمہوریت
جماعت اسلامی ہند اس بات پرتشویش کا اظہارکیا کہ ہمارا یہ ملک آئینی جمہوریت سے بتدریج جانبداریت اوراکثریت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کی نشاندہی متعدد واقعات اورپیش رفتوں سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے تقریبا تمام ہی اراکین (راجیہ سبھا کے 46 اورلوک سبھا کے 100 ارکان پارلیمنٹ) کو بغیرکسی ٹھوس الزام کے معطل کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیراپوزیشن کے پارلیمنٹ میں احتساب کا پہلو صفراورحکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر سوال کرنے والا کوئی موجود نہیں رہا۔ ًاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسراقتدارپارٹی فوجداری قوانین، ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ اورالیکش کمیشن آف انڈیا کی تقرری جیسے قوانین بلا روک ٹوک پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ان نئے قوانین میں ایگزیکٹیوکوغیرمعمولی اختیارات دیئے گئے ہیں۔
ٹیلی کام بل 2023 کی منظوری پرتشویش
ٹیلی کام بل 2023 کی حالیہ منظوری پربھی جماعت اسلامی نے تشویش کا اظہار کیا۔ یہ قانون، حکومت کوہرطرح کی مواصلات تک پہنچنے کا اختیاردیتا ہے، جوتجارتی مفادات اورشہری آزادی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس بل میں تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت کو واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹیلی گرام ، یہاں تک کہ ٹنڈر جیسی ایپلی کیشنز کو ٹریک کرکے ذاتی زندگیوں پر نظر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس میں نشانات، سگنلز، متون، تصاویر، آواز، ویڈہوز، ڈیٹا اسٹریمز، انٹلی جینس اور ٹیلی کمیونیکشین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قانون نافذ کرنے والےحکام کے لئے قانون کےغلط استعمال کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کےعلاوہ یہ بل یونین اورریاستی حکومتوں کو رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرنے والے میسیج کو روکنے، حراست میں لینے، چنندہ میسیج کی ترسیل نہ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور سرکار کو پبلک سیکورٹی کے نام پر موبائل نیٹ ورک کو اپنے کنٹرول میں لینے اور اسے معطل کرنے کا بھی حق دیتا ہے۔ مضبوط احتسابی میکانزم سے عاری اس بل میں سرکاراورحکام کوجو وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں، یہ اس خدشے کوجنم دیتا ہے کہ اس کا استعمال مذہبی اقلیتوں اورپسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کوہراساں کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے جماعت مطالبہ کرتی ہے کہ مذکورہ بل سے ان حصوں کو ہٹانے کے بعد ہی نافذ کیا جائے جن سے شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کو مجروح ہونے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے پر اظہار تشویش
جماعت اسلامی ہند نے غزہ کی موجودہ صورتحال پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہم اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں، جہاں جنگ شروع ہونے کے بعد سے 22 ہزارسے زیادہ فلسطینیوں کوقتل کیا گیا۔ اسرائیل کی جانب سے نہ رکنے والی فضائی بمباری کے نتیجے میں محاصرہ شدہ انکلیومیں ہلاکت اورتباہی بین الاقوامی قوانین اورانسانی حقوق کی بدترین مثال ہے۔ وہاں عام نہتے شہریوں بالخصوص معصوم بچوں اورخواتین کی نسل کشی، اسپتالوں اوراسکولوں پراندھا دھند بمباری ودیگرغیرانسانی کاروائیاں بلا روک جاری ہیں اورعالمی برادری اس خوفناک قتل عام پرخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ غزہ پراسرائیلی جنگ نے صیہونیوں، امریکہ اوربعض یورپی ممالک کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ جبکہ فلسطینی عوام نے جس حوصلے کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا اورغیرمعمولی صبرواستقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ جماعت اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی اس نسل کشی کی شدید مذمت کرتی ہے اورعالمی برادری واقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں عائد کرکے فوری طورپرمستقل جنگ بندی کوعمل میں لائے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرے اورایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقین بنانے کے لئے اقدامات کرے۔
-بھارت ایکسپریس