قبائلی ہندوستان کا فراموشی سے بااختیار بننے تک کا شاندار سفر
How Tribal India Went from Forgotten to Empower! سنہ 2014 سے قبل ہندوستان کی قبائلی برادریوں کو ایک شدید جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا، ان کی جدوجہد اور کوششوں کو بڑی حد تک ملک کے لئے نظر انداز کیا گیاتھا۔ کئی دہائیوں تک وہ حاشیہ پر رہے ، انہیں نظرانداز کیاگیا اور صحت مند، باوقار زندگی گزارنے کے لیے درکار سہارے کے بغیر انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ بہت سے قبائلی علاقوں میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور اقتصادی مواقع جیسی بنیادی سہولیات یا تو بہت کم تھیں یا نہ ہونے کے برابر تھیں۔
لیکن 2014 کے بعد سے ایک انقلابی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ مودی حکومت کے توجہ پرمرکوز اقدامات نے نہ صرف قبائلی برادریوں کی ضروریات کو تسلیم کیا ہے بلکہ ان مسائل کو فوری طور پر ترجیح بھی دی ہے۔ تعلیم سے لے کر صحت کی دیکھ بھال اور معاشی بااختیار بنانے تک- یہ قبائل اب اس قسم کی حمایت اور سرمایہ کاری دیکھ رہی ہیں جو نسلوں سے ان سے محروم تھی۔
مثال کے طور پر تعلیم کو لے لیں۔ قبائلی بچوں کو کبھی معیاری اسکولنگ تک رسائی کی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ 2014 سے قبل چند ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکول ( ای ایم آر ایس) موجود تھے،وہ بھی بہت کم اور وسائل انتہائی کم اور محدود تھے۔ تب سے مودی حکومت کی جانب سے تعلیم پر توجہ کے باعث ان اسکولوں میں انتہائی نمایاں توسیع ہوئی ہے۔ آج715 (سات سو پندرہ) اسکولوں کو منظوری دی گئی ہے جبکہ 476 (چار سو چھہتر)پہلے ہی کام کر رہے ہیں، جن میں 1.33 لاکھ (ایک لاکھ تینتیس ہزار) سے زیادہ طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہ اسکول جدید سہولیات، ڈجیٹل کلاس رومز اور کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے سے آراستہ ہیں، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ قبائلی بچوں کو ایسی تعلیم ملے جو ان کے شہری ہم منصبوں کے برابر ہو۔ 17,000 (سترہ ہزار) کروڑ کے اسکالرشپ نے 3 کروڑ سے زیادہ قبائلی طلباء کو مزید بااختیار بنایا ہے، جس سے انہیں اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور کریئر کے بہتر مواقع ملے ہیں۔ وہ راستہ جو کبھی قبائلی نوجوانوں کے لیے بند نظر آتا تھا اب کھلا ہوا ہے، اور وہ امکانات سے بھرے مستقبل کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔
صحت کی دیکھ بھال کے معاملہ میں بھی کہانی کچھ مختلف نہیں ہے۔ 2014 سے قبل ، قبائلی برادریوں کی معیاری صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی تھی، حکومت کی مدد سست یا پہنچ سے باہر تھی۔ لیکن اس کے بعد ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ موبائل میڈیکل یونٹ اب قبائلی علاقوں کے دور دراز کونوں اور علاقوں تک پہنچ گئے ہیں، جس سے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات قابل رسائی ہوگئی ہیں۔ مزید برآں، قبائلی علاقوں میں 1.5 (ایک اعشاریہ پانچ)کروڑ سے زیادہ بیت الخلاء بنائے گئے ہیں، جس سے صفائی ستھرائی اور حفظان صحت میں بہتری آئی ہے اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو کم کیا گیا ہے۔ قبائلی برادریوں کی صحت اور بہبود کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس سے ان کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق نظر آ رہا ہے۔
سکل سیل انیمیا کو ختم کرنے کے لیے ملک گیر کوششیں اور مہم چلائی جارہی ہے- ایک ایسی بیماری جو قبائلی برادریوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے – پی ایم مودی کی قیادت میں ایک اہم سنگ میل رہا ہے۔ نیشنل سکل سیل انیمیا کے خاتمے کا مشن جو 2023 میں شروع کیا گیا ہے، 2047 تک اس بیماری کے مکمل خاتمے کا ہدف رکھاگیا ہے۔ اب تک 4.6 (چار اعشاریہ چھ)کروڑ سے زیادہ قبائلی افراد کی اسکریننگ کی جا چکی ہے، اور ان کی تشخیص اور علاج جاری ہے، صحت کی دیکھ بھال میں مداخلت کی، جو صرف چند سال پہلے تک، ایسی حالت تھی جو ایک دور کا خواب لگتا تھا۔ اس کا مقصد 7 کروڑ لوگوں کو اسکریننگ، کونسلنگ اور دیکھ بھال کے ذریعہ کور کرنا ہے، جس سے قبائلی برادریوں کو نئی امید ملے گی۔
جنگلات کے حقوق کے قانون (رائٹ تو فاریسٹ ایکٹ )کے سخت نفاذ کے ساتھ قبائلی اراضی حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کے تحفظ میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ 2014 سے پہلے قبائلی برادریوں کو اپنی زمینوں پر بہت کم تحفظ حاصل تھا، وہ مسلسل تجاوزات اور نقل مکانی کے خوف میں رہتے تھے۔ ان کی زمین پر کنٹرول کے اس فقدان نے غربت اور ثقافت کے نقصان کے ایک چکر کو جاری رکھا۔ لیکن مودی حکومت کے دور میں ایک تاریخی تبدیلی آئی ہے۔ جنگلات کے حقوق ایکٹ کو فعال طور پر نافذ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں قبائلی خاندانوں کو 23 (تیئیس )لاکھ سے زیادہ اراضی کا حق دیا گیا ہے، جس میں 1.9 (ایک اعشاریہ نو)کروڑ ایکڑ سے زیادہ اراضی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی اقدام نے قبائلیوں کو اپنی اراضی پر کاشت کرنے، روایتی ذریعہ معاش پر عمل کرنے اور نقل مکانی کے خوف کے بغیر اپنے آبائی ورثے کی حفاظت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ قبائلی ہندوستان کے لیے اراضی صرف ایک وسیلہ نہیں ہے بلکہ انہیں بااختیارو خود کفیل اور باعزت و احترام بنانے کے نئے دور میں تحفظ اور وقار کا ذریعہ ہے۔
معاشی طور پر بااختیار بنانا ایک اور ایسا شعبہ ہے جہاں تبدیلی انتہائی گہری رہی ہے۔ 2014 سے قبل ، قبائلی برادری اکثر اپنی روزی روٹی کے لیے جنگل کے وسائل پر انحصار کرتی تھی لیکن ان وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ان کے پاس مدد یا ذرائع کی کمی تھی۔ آج، نیشنل بانس مشن جیسے اقدامات نے قبائلیوں کے لیے معاشی منظر نامے کی نئی تعریف و تشریح کی ہے۔ بانس کو درخت کے طور پر درجہ بندی کر کے حکومت نے قبائلی خاندانوں کے لیے بانس کی کٹائی، پروسیسنگ اور فروخت کے لیے نئی راہیں کھولیں، جس سے انھیں آمدنی کا ایک پائیدار ذریعہ فراہم ہوا ہے۔ ون دھن وکاس کیندروں ( وی ڈی وی کے ایس) نے بھی 45 (پینتالیس )لاکھ سے زیادہ قبائلی استفادہ کنندگان کی مدد کی ہے، جس سے انہیں جنگلات کی پیداوار میں قدر بڑھانے اور ان کی آمدنی کو بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ پی ایم – کسان اسکیم کے تحت تقریباً 1.2 (ایک اعشاریہ دو) کروڑ قبائلی کسانوں کو اب براہ راست مالی مدد ملتی ہے، جو انہیں زراعت میں سرمایہ کاری کرنے اور اپنی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے بااختیار بناتے ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف قبائلی معیشتوں کو تبدیل کر رہے ہیں، بلکہ وہ خود انحصارو خود کفیل اور طویل مدتی خوشحالی کی بنیاد بھی رکھ رہے ہیں۔
انفراسٹرکچر کے معاملہ میں قبائلی برادریوں کو طویل عرصے تک الگ تھلگ رکھا گیا تھا، خاص طور پر ماؤ نوازوں سے متاثرہ علاقوں میں۔ انتہائی خراب اور ناقص سڑک کنیکٹی وٹی، صاف پانی کی کمی، اور ناقابل بھروسہ نقل و حمل روزانہ کی مشکلیں تھیں۔ لیکن 2014 کے بعد سے ان دور دراز علاقوں کو مرکزی دھارے سے جوڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی گئی ہیں ۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں، جو قبائلی دیہاتوں/ گاؤں کو شہری مراکز سے جوڑتی ہیں اور تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور تجارت کے نئے مواقع کھولتی ہیں۔ بنیادی ڈھانچے پر حکومت کی توجہ نے کئی دہائیوں سے موجود خلاء کو پُر کر دیا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ قبائلی کمیونٹیز اپنے اردگرد کی دنیا سے مزید منقطع نہ ہوں۔
شاید سب سے دل خوش کردینے والی تبدیلیوں میں سے ایک قبائلی برادریوں کی ثقافتی شناخت میں آئی ہے۔ برسوں سے قبائلی ہیروز کی قربانیوں، خدمات اور ان کے بلیدانوں کو بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب، مودی حکومت کے تحت ان گم نام ہیروز کو عزت و احترام دینے کی ایک ٹھوس کوشش کی گئی ہے۔ عظیم قبائلی رہنما برسا منڈا کے یوم پیدائش کو اب جن جاتیہ گورو دیوس کے طور پر منایا جاتا ہے، جو ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے لیے ان کی بے پناہ خدمات اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ حبیب گنج جیسے ریلوے اسٹیشنوں کا نام بدل کر رانی کملا پتی ریلوے اسٹیشن رکھنے اور ملک بھر میں قبائلی فریڈم فائٹر میوزیم بنانے سے بھی قبائلی ہیروز کو وہ شناخت و پہچان ملی ہے، جس کے وہ مستحق و حقدار ہیں۔ ثقافتی روایات میں یہ تبدیلی قبائلی برادریوں میں فخر اور شناخت کا احساس پیدا کر رہی ہے، انہیں یاد دلا رہی ہے کہ ان کی تاریخ ہندوستان کے ورثے میں اتنی ہی اٹوٹ ہے جتنی کسی اور کی ہے۔
قبائلی ہندوستان کو صرف نظرسے بااختیار بنانے میں تبدیلی محض ایک وعدہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے ہر روز تشکیل پا رہی ہے۔ وہ جدوجہد جو کبھی قبائلی برادریوں کی زندگیوں کی سمت طے کرتی تھی اب فوری اور انتہائی موثرطریقے کے ساتھ حل کی جا رہی ہے، جس سے ہندوستان کی قبائلی آبادی کے لیے ایک روشن اور زیادہ جامع مستقبل کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
-بھارت ایکسپریس