جیسون چیانگ
اقوام متحدہ کے پائدا ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے تحت حکومتِ ہند نے گذشتہ ایک دہائی کے عرصہ میں صنفی معیار کو بہتر کرنے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے سلسلے میں کئی اقدامات کیے ہیں جن کا مطمح نظر خواتین کے خلاف ہورہے جرائم پر قدغن لگانا ، نیز پولیس میں ان کی شکایت درج کرانے کے طریقہ کار کو مزید بہتر بنانا ہے ۔ قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار سے انکشاف ہوتا ہے کہ ملک گیر پیمانہ پر خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات میں سزا کی شرح 25.3 فی صد ہے۔ مگر اوڈیشہ میں یہ شرح محض 9.2 فی صد ہی ہے۔
حیدرآباد میں واقع امریکی قونصل خانے کے اشتراک سے اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم سوشل ویلفیئر ایجنسی اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (سواتی) خواتین قائدین اور طلبہ کو قوانین کی تفہیم،نیز ان اداروں کی نشاندہی کرنے میں مدد کررہی ہے جو کہ صنفی تشددکے خلاف قانونی امداد فراہم کرنے کے علاوہ صنفی معیار کو بہتر بنانے کی جانب گامزن ہیں۔
مشترکہ آلات تیار کرنا
سواتی کے مطابق اوڈیشہ میں خواتین کو جن مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ان میں صنفی تشدد، اراضی کے مالکانہ حقوق سے محرومیت، سیاست میں بہت کم نمائندگی، مردوخواتین کی شرح اجرت میں تفاوت نیز خواتین کی خراب صحت شامل ہیں۔مثال کے طور پر 2020-21 میں اوڈیشہ میں صنفی اجرت میں تفاوت کی شرح 39.9 فی صد تھی جو کہ 28 فی صدتا 36.2 فی صد کے قومی اوسط سے کہیں زیادہ کم تھی۔ علاوہ ازیں اوڈیشہ میں خواتین کو زمین کی ملکیت سے اکثر محروم رکھا جاتا ہے اور ان کی سیاست میں نمائندگی بھی بہت کم ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے پیش نظر سواتی نے کئی وسائل کا سہارا لیا اور لائحہ عمل تیار کیا ۔
اس غیر سرکاری تنظیم نے کئی ورکشاپوں کا انعقاد کیا جن میں قانونی خواندگی، رابطہ کاری اور صنفی حقوق کی بیداری کے ذریعہ صنفی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سواتی نے ’’قانونی خواندگی کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانا‘‘کے عنوان سے اوڈیشہ میں مختلف جامعات میں ورکشاپس منعقد کیں جن کا مقصد نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنا ،نیز طلبہ کو قانونی آلہ جات فراہم کرنا تھا جن سے صنفی تشدد پر قابو پایا جا سکے۔
اس پروگرام کی روح رواں سوجاتا مہاپاترا اور پوجافولا پٹنائک تھیں۔یہ دونوں بین الاقوامی وزیٹر لیڈر شپ پروگرام (آئی وی ایل پی)کی فیض یافتہ گان ہیں۔واضح رہے کہ آئی وی ایل پی امریکی محکمہ خارجہ کا ایک اعلیٰ معیاری پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے جس کے ذریعہ سے پیشہ ور افراد امریکہ کے قلیل مدتی دورہ سے اپنے امریکی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ورکشاپس اوڈیشہ کے 30 اضلاع میں منعقد کیے گئے جن میں 600 سے زائد شرکاء نے شرکت کی۔
پٹنائک وضاحت کرتی ہیں کہ مہاپاترااور انہوں نے ورکشاپوں کے لیے خاتون قائدین اور طلبہ کو ہی ہدف بنایا کیوں کہ اس سے اس کا اثر کافی بڑے پیمانہ پر ہوتا ہے۔ وہ وضاحت کرتی ہیں ’’ ہم نے محسوس کیا کہ اگر بنیادی سطح پرفعال صوبائی حکومت یا غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے والی خاتون قائدین اور طلبہ کو اگر تربیت سے متصف کیا جائے تو یہ لوگ اپنے طبقات میں محروم اور تشدد کی شکار خواتین کی امداد کے لائق بن سکیں گی۔ ‘‘
پٹنائک نے یہ بھی بتایا ’’اکثر اوقات خواتین اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف شکایت درج کرانے سے قاصر رہتی ہیں یا پھر انہیں سرے سےیہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بنیادی سطح پر قائدین کو تربیت دیں گے جو کہ متعلقہ حکام کے پاس ایف آئی آر درج کرانے، نیز ظالموں سے متاثرین کوحفاظت حاصل کرنے میں مدد کرسکیں جس کی کہ وہ حقدار ہیں۔ ‘‘
وکالتی ٹول کِٹ
اس پراجیکٹ کی ایک خاص بات یہ رہی کہ اس میں خواتین وکلاء کے لیے ایک کتابچہپیش کیا گیا۔ مذکورہ کتابچے میں قوانین، صنفی انصاف اور مساوات کے متعلق آئینی اختیارات، شکایات کے ازالہ کے طریقہ کار اور خواتین کی امداد کے لیے دستیاب مقامی اداروں کی تفصیلات جیسے اہم موضوعات پر معلومات درج ہیں۔ یہ کتابچہ اور ٹول کٹ یونیورسٹی ورکشاپوں کے دوران تقسیم کیے گئے۔
مہاپاترا بتاتی ہیں کہ گذشتہ ایک برس کے دوران سواتی نے قانونی خواندگی، ہم رتبہ گروپ معلومات، اشاعات کی تقسیم اور ادارہ جاتی رابطہ کاری کے ذریعہ سے اوڈیشہ کی خواتین کی زندگیوں میں خاطر خواہ اور دور رس تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ مہاپاترا بیان کرتی ہیں’’ ہماری پوری پوری کوشش رہی ہے کہ ہم خواتین کو ضروری علم، ہنر اور امدادی نیٹ ورک سے لیس کریں تا کہ وہ اپنے حقوق حاصل کر سکیں،نیز اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرسکیں۔‘‘
مہاپاترا کا کہنا ہے کہ اس اقدام نے شرکاء پر کافی گہرے نقوش مرتب کئے۔’’ہمیں احساس ہوا کہ شرکاء موجودہ قانونی اختیارات اوراستحقاقات کے بارے میں جاننے کے لیے بہت پر جوش نظر آئے۔‘‘مہاپاترا نے مشاہدہ کیا کہ بعض شرکاء نے تسلیم کیا کہ وہ روز مرہ کی زندگی میں صنفی تشدد کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ بعض ورکشاپوں میں تو خواتین قائدین نے اپنے اپنے علاقوں سے نئے شرکاء ۔ طلبہ اور نوجوان لڑکیوںکو بھی تربیتی پروگرام میں مدعو کیا۔ چند نے تو گھریلو تشدد، دفتروں میں جنسی ہراسانی، اور اطفال شادیوں کے قصے بھی بیان کئے۔ ان معاملات کی شکایت پولیس میں درج کرائی گئی اور متاثرین کو ضروری امداد فراہم کی گئیں۔‘‘
اپنی اس شاندار کامیابی سے حوصلہ پاکر پٹنائک اور مہاپاترا مزید علاقائی شرکاء کے ساتھ مل کر کام آگے بڑھانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ مہاپاترا بتاتی ہیں ’’ بھووَنیشورپولیس کمشنریٹ نے ہم سے درخواست کی ہے کہ ہم ان کی صفوں میں داخل ہونے والے نوجوانوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں تربیت دیں ۔ مزید برآں، انہوں نے ہمارے کتابچہ کے نسخے بھی منگوائے ہیں تاکہ انہیں وہ اپنے افسران کے درمیان تقسیم کرسکیں۔ ملکان گری، کوراپوٹ، نبرانگپور، پوری اور جھرسوگوڈا کے ضلع انتظامیہ نے بھی ہم سے درخواست کی ہے کہ ہم اپنے پراجیکٹ کو بلاک اور پنچایت سطح تک وسعت دیں۔‘‘
جیسون چیانگ لاس اینجیلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
https://spanmag.mwp.usembassy.gov/ur/empowering-women-through-legal-literacy/
بھارت ایکسپریس۔