Bharat Express

Dressmaking for Disabled People: معذور افراد کے لئے ملبوسات سازی

خیال آرائی کرتے ہوئے باسو کہتی ہیں ’’معذورافراد کے ساتھ معاشرے کا برتاؤ جداگانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس وقت گرچہ بھارت میں لاکھوں افراد جسمانی معذوری کا شکار ہیں، تاہم  ان کا معیارِ زندگی بلند کیا جاسکتا ہے۔‘‘

سومتا باسو(بائیں) نے اپنی والدہ امیتا(مرکزمیں) کے ساتھ ’زینیکا انکلوسِو فیشن‘ کی بنیاد ڈالی تاکہ معذور اور صحت کے مسائل سے نبردآزما ہونے والے افراد کے لیے ملبوسات دستیاب کروا سکیں۔ (تصاویر بشکریہ دیگانتا گوگوئی، سومتا باسو)

ٹریور ایل جوکمس (نیو یارک یونیورسٹی میں تحریر، ادب اور معاصر ثقافت کے استاد ہیں۔(

سومتا باسومسائل حل کرنے کی ماہرہ ہیں۔ دراصل سومتا کوگیٹھیا کا عارضہ لاحق ہے، جس کے سبب وہ تقریباً ۸۰ فی صد چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ انہیں ایک دن احساس ہوا کی گیٹھیا کے مریضوں اورچلنے پھرنے سے معذورافراد کے لیے موجود ملبوسات کی تعداد بڑی محدود ہے۔ اس عرفان کے بعد باسو نے اپنی والدہ امیتا کے ساتھ مل کر’زینیکا اِنکلوسِو فیشن‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد چلنے پھرنے سے معذوراورصحت سے وابستہ مسائل سے دو چارافراد کے لئے ان کی ضرورت کے حساب سے ملبوسات تیارکرنا ہے۔ باسو نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کےنیکسَس اسٹارٹ اَپ ہَب کے ۱۳؍ ویں گروپ کا حصہ بنیں۔ ’زینیکا‘ کا آغازکرنے سے قبل باسو نے تقریباً ۱۸ برس بحیثیت بین الاقوامی ترقیاتی  کارکن اورصحافی کام کیا ہے۔

باسو بتاتی ہیں ’’اپنی عمرکی چوتھی دہائی کی تکمیل سے پیشترہی مجھ میں معذوری کی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں، جس کی وجہ سے مجھے کپڑے پہننے میں شدید درد ہوتا تھا۔ اس لئے میں  نے اسی وقت سے ایسے ملبوسات کی تلاش شروع کردی، جو میرے جسم کی ضروریات کے مطابق ہوں۔ مگر بدقسمتی سے مجھے ایک بھی ایسا لباس نہیں ملا۔ یہی خلا میرے لیے ’زینیکا‘ شروع کرنے کا محرک بن گیا۔‘‘

ان کی کمپنی کی مصنوعات میں مردوں اور عورتوں کے لیے مخصوص پاجامے شامل ہیں جن میں ایسے کمر بند لگے ہیں جو نہ صرف آسانی کے ساتھ کھولے جا سکتے ہیں بلکہ کافی آرام دہ بھی ہیں ۔یہ پاجامے دونوں ہی صورتوں میں پُرکشش نظر آتے ہیں، خواہ آپ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوں یا کھڑے ہوں۔باسو اپنے ملبوسات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہم اپنی مصنوعات کو جسم کی ضروریات کے اعتبار سے تیار کرتے ہیں جس سے انہیں پہننے میں تکلیف نہیں ہوتی۔ وہ پہننے والے کو زیب بھی دیتے ہیں ۔ پہننے والا ان میں نہیں سماتا ، کپڑے پہننے والے کا جزوِ بدن بن جاتے ہیں ۔ ‘‘  باسو کی کمپنی کے ملبوسات آن لائن بھی دستیاب ہیں ۔انہیں پورے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔

اپنی کمپنی کی مصنوعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے باسو با خبر کرتی ہیں ’’فی الحال ہماری تمام تر توجہ دائمی مریضوں، معذورافراد اورسن رسیدہ افراد کے لیے گھراوردفترمیں پہنے جا سکنے والی مختلف ملبوسات کی تیاری پرمرکوزہیں۔ ہم ایسے افراد کے لیے بھی ملبوسات تیار کر رہے ہیں جو کینسرکا علاج کروارہے ہوں، عمل جرّاحی سے گزرے ہوں یا پھرجسم کی کوئی ہڈی ٹوٹ جانے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل سے دو چارہوں وغیرہ۔‘‘

باسو بتاتی ہیں کہ انہیں صارفین  سے اپنی پہل کے لیے کافی حوصلہ افزا رد عمل مل رہا ہے۔ ’’صارفین کا کہنا ہے کہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کہ کوئی برینڈ معذور افراد اور صحت سے متعلق مسائل سے دو چار افراد کے متعلق بھی فکر مند ہے۔ ‘‘ اکثرایسا ہوتا ہے کہ معذورافراد کے لئے ملبوسات تیارکرتے وقت سہولت کا خیال رکھتے ہوئے لباس کی خوبصورتی پرتوجہ نہیں دی جاتی اوران دونوں چیزوں کو یکجا نہیں کیا جاتا۔

ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے باسو بتاتی ہیں ’’ایک ۲۶ سالہ لڑکی نے انہیں لکھا کہ ’زینیکا‘ کے کپڑے زیب تن کرکے وہ بہت منفرد لگ رہی تھی۔ ان کپڑوں میں اسے گھر کے باہر بیت الخلاء جانے میں کوئی مشکل نہیں پیش آئی۔ ان کپڑوں کو پہن کر وہ آسانی سے کھاپی سکتی ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کیوں کہ ہم نے وھیل چیئر کے لیے مخصوص ملبوسات تیارکیے ہیں۔‘‘

باسو تسلیم کرتی ہیں کہ نیکسَس کا تربیتی پروگرام ان کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ اپنی اسٹارٹ اَپ کمپنی کی کامیابی کا سہرا نیکسَس کے سر باندھتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’’ نیٹ ورکنگ اورامداد کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو سکا۔‘‘ مگر دشواریاں ابھی بھی برقرار ہیں۔ خیال آرائی کرتے ہوئے باسو کہتی ہیں ’’معذورافراد کے ساتھ معاشرے کا برتاؤ جداگانہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس وقت گرچہ بھارت میں لاکھوں افراد جسمانی معذوری کا شکار ہیں، تاہم  ان کا معیارِ زندگی بلند کیا جاسکتا ہے۔‘‘ باسو اپنی پہل کے تئیں پُر امید نظر آتی ہیں۔ یہ ثمرہ ہے ’زینیکا‘ کی خدمات اور ماں۔ بیٹی کی جوڑی کی انتھک کوششوں کا جس سے معذور افرا د کی زندگیاں بہتر ہو رہی ہیں۔

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

   -بھارت ایکسپریس

    Tags:

Also Read