Bharat Express

سٹیزن شپ امنڈمنٹ ایکٹ: افسانہ یا حقیقت

پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کی آبادی 22 سے کم ہو کر 07 فیصد رہ گئی ہے۔ جبکہ ہندوستانی اقلیتوں کی آبادی 23 سے بڑھ کر30 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں غیرمسلم اقلیتوں کی کمزورحالت کونمایاں کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں صدر، نائب صدر، سی ای سی اور چیف جسٹس جیسے اہم آئینی عہدوں پر مسلم کمیونٹی کے لوگ فائز رہے ہیں۔

منصورخان، قومی صدر، صوفی اسلامی بورڈ

ازقلم: منصورخان، قومی صدر، صوفی اسلامی بورڈ

”This article/write-up has been edited and sent by the Press Information Bureau(PIB), Government of India and reprinted on its request.“

یہ مضمون پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)، حکومتِ ہند کے ذریعہ ایڈیٹیڈ/ترمیم شدہ اورارسال کردہ ہے، جوان کی گزارش پرشائع کی گئی ہے۔

صوفی اسلامی بورڈ ہندوستان کی تقسیم کے وقت، یہ امید کی جاتی تھی کہ ہندوستان کے اقلیتوں اور پڑوسی ممالک کے لوگوں کو اپنے شہری حقوق اورعزت کی زندگی ملے گی۔ اس میں ان کے مذہب اور روایت کے حقوق شامل تھے۔ تاہم افغانستان، پاکستان یا بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا۔ تاریخی نہرو-لیاقت معاہدہ جسے دہلی معاہدہ بھی کہا جاتا ہے، 8 اپریل 1950 کو ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے دستخط کیے تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی برادری کے افراد کو عوامی زندگی میں حصہ لینے، سیاسی یا دیگر دفاتر میں عہدے حاصل کرنے اور اپنے ملک کی سول اور مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کا ایک ہی موقع دیا جائے گا۔ دہلی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے مذہبی طریقوں پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ بھارت نے اپنا وعدہ پورا کیا لیکن ہمارے پڑوسی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ پڑوسی ممالک میں اقلیتوں کی آبادی 22 سے کم ہو کر 07 فیصد رہ گئی ہے۔ جبکہ ہندوستانی اقلیتوں کی آبادی 23 سے بڑھ کر30 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ پاکستان، بنگلہ دیش اورافغانستان میں غیرمسلم اقلیتوں کی کمزورحالت کونمایاں کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں صدر، نائب صدر، سی ای سی اورچیف جسٹس جیسے اہم آئینی عہدوں پرمسلم کمیونٹی کے لوگ فائز رہے ہیں۔ لیکن تینوں پڑوسی ممالک اپنی اقلیتی برادریوں کے حقوق کا احترام کرنے میں ناکام رہے۔ لہٰذا، سٹیزن شپ امنڈمنٹ ایکٹ (CAA) کی ضرورت پیدا ہوئی۔ افغانستان، پاکستان اوربنگلہ دیش ایسے ممالک ہیں، جن میں ہندوستان کے خلاف اسلامی اسناد موجود ہیں۔ افغان آئین کا آرٹیکل 2 اسے اسلامی ریاست بناتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیشی اور پاکستانی آئین بھی اسی کا اعلان کرتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کی سرحدیں 3,323 کلومیٹر، بھارت-بنگلہ دیش کی سرحد 4,096 کلومیٹراوربھارت-افغانستان کی سرحد 106 کلومیٹر پر محیط ہے۔

ہماری جغرافیائی سرحد سے متصل تینوں ممالک کی قانونی وضاحت مختلف ہوسکتی ہے لیکن وہ ایک طرح سے اسلامی ریاستیں ہیں۔ کسی بھی اسلامی ریاست/جمہوریہ میں بسنے والے مسلمانوں پر کسی بھی مذہبی دائرے پر تشدد کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اس ریاست کی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایکٹ ہندوستان کی زمینی سرحد سے متصل ان تینوں ممالک کی مذہبی اقلیتوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ سی اے اے، ان تمام ممالک میں ان مذہبی اقلیتوں کوشہریت دے کران کے ماضی کے تمام دستاویزات کو نظر انداز کر کے مذہبی اذیت کو ختم کررہا ہے۔ اعداد وشمارسے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں ختم ہونے والی 5 سالہ مدت میں، افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے 560 سے زیادہ مسلمان مہاجرین ہندوستان آئے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستانی قانون مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرتا ہے۔مزید یہ کہ سٹیزنشپ امنڈمنٹ ایکٹ اسٹینڈنگ کمیٹی، مشترکہ کمیٹی وغیرہ سے گزرا تھا، اس طرح جمہوری پارلیمانی عمل کا احترام کیا گیا تھا۔ ماضی میں بھی یوگنڈا اور سری لنکا کے پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے ہندوستان کے خود مختارفیصلے میں مذہبی دائرے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا اورنہ ہی 1971 میں جب بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو شہریت دی گئی تھی، کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔سی اے اے کی طرف سے اس طرح کے انسانی ہمدردی کے اقدامات پر اب ایسے سوالات نہیں اٹھائے جانے چاہئیں۔یہ ایک غلط فہمی ہے کہ یہ ایکٹ اقلیتوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کے خلاف ہے۔تاہم، اس ملک کے مسلمانوں کے لیے تشویش کا سوال نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ وہ شہری ہیں اوررہیں گے۔ کوئی انہیں اذیت نہیں  دے سکتا۔

سی اے اے ،ایک متعلقہ سوالوں کا جواب نفی میں دیتا ہے جو کہ “کیا ہندوستان کی طرف سے دنیا میں کہیں سے بھی کسی بھی غیر قانونی مسلمان مہاجر کو شہریت دی جانی چاہیے؟” سی اے اے ان مخصوص طبقوں کے لیے ہے، جن کے پاس اپنے مذاہب کے لیے پرسکون ماحول نہیں ہے اور وہ تین ممالک افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ سی اے اے ،ہندوستانی آئین کی روح کو مجسم کرتا ہے۔ اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قانون سے کسی بھی اقلیت کو، خاص کر مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، کیونکہ یہ قانون صرف چند غیر ملکیوں کو شہریت دیتا ہے، یہ کسی ہندوستانی سے شہریت نہیں چھینتا۔کسی کی شہریت چھیننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، عیسائیوں اور پارسیوں کو شہریت دینے کا مسئلہ ہے جو اذیت دیے جانے کے بعد اپنے اپنے ممالک سے آئے ہیں۔ سٹیزنشپ ایکٹ، 1955 کی دفعہ 2(1)(b)  کے تحت، جو کہ ان تارکین وطن کے لیے فراہم کرتا ہے جو پاسپورٹ، ویزا اور سفری دستاویزات کے بغیر ہندوستان آئے ہیں، یا جن کے پاسپورٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہوچکی ہے، غیر قانونی تارکینِ وطن تصور کیے جاتے ہیں،جسے ترمیم کر دئے گئے۔ اب، 06 کیٹیگریز یعنی ہندو، سکھ، جین، پارسی، بدھ اور عیسائی، جو تینوں ممالک افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آتے ہیں، کو غیر قانونی مہاجر نہیں سمجھا جائے گا۔ مزید یہ کہ اگر ایسے تارکین وطن سٹیزنشپ ایکٹ 1955 کے سیکشن 5 یا تھرڈ شیڈول کی شرائط کو پورا کرنے کے بعد شہریت حاصل کرتے ہیں، تو انہیں اس تاریخ سے شہریت دی جائے گی جس دن وہ ہندوستان پہنچے تھے۔بہت سے مہاجرین 31 دسمبر 2014 سے پہلے آچکے ہیں، ان سب کو اس تاریخ سے شہریت مل جائے گی، جب وہ آئے ہیں۔

 بھارت ایکسپریس۔