قریب 35سالہ محمد انظر عالم نے کہاکہ اگر آپ کے کپڑوں سے داغ ہٹ جائے تو بھی اس کے نشان باقی رہتے ہیں، لوگ اب ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انظرعالم ان پانچ مدرسوں کے اساتذہ میں سے ایک ہیں جنہیں 30 مئی 2023 کو 59 بچوں کو بہار سے مہاراشٹر لے جانے کے الزام میں ’غلطی سے‘ گرفتار کیا گیا تھا۔ گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) نے خود اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے غلطی سے گرفتار کیا گیا تھا۔یہ تمام اساتذہ دانا پور-پونے ایکسپریس میں سفر کر رہے تھے۔ پھر انہیں گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) نے مہاراشٹر کے منماڈ اور بھوساول ریلوے اسٹیشنوں سے ‘مزدور بچوں’ کی فراہمی کے شبہ میں حراست میں لیا تھا۔ایک ‘غلط فہمی’ کی قیمت کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ہم 35 سالہ محمد انظر عالم کی زندگی سے لے سکتے ہیں۔ جسے کسی ایسے جرم میں جیل جانا پڑا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔ اب خاندان مالی بحران کا شکار ہے اور انظرعالم اپنے اوپر لگائے جانے والے بے بنیاد الزام سے پریشان ہیں۔
جی آر پی نے اعتراف کیا کہ ‘غلط فہمی’ تھی
گورنمنٹ ریلوے پولیس (جی آر پی) کے حکام نے مئی 2024 میں کہا تھا کہ پانچ اساتذہ کے خلاف مقدمہ اس سال مارچ میں بند کر دیا گیا تھا (یعنی ان کی گرفتاری کے 10 ماہ بعد)۔تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر غلط فہمی کی وجہ سے درج کی گئی تھی۔ منماد جی آر پی کے انسپکٹر شرد جوگ دند نے کہا کہ ہم نے پایا کہ بچوں کی اسمگلنگ کا کوئی کیس نہیں ہے اور عدالت میں کلوزر رپورٹ دائر کی گئی ہے۔استاد انظر عالم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے تین ماہ جیل میں گزارے۔ جب کہ ان کے ساتھی اساتذہ صدام حسین صدیقی، نعمان عالم صدیقی، اعجاز ضیاء الحق صدیقی، اور محمد شاہنواز ہارون نے 12 دن پولیس حراست میں اور 16 دن ناسک جیل میں گزارے۔
یہ سارا معاملہ کیا تھا؟
دراصل 30مئی 2023 کو بہار کے ارریہ ضلع سے 8 سے 17 سال کی عمر کے 59 بچے اپنے پانچ اساتذہ کے ساتھ مدرسہ میں درس وتدریس کے لیے پونے اور سانگلی جا رہے تھے۔ دہلی میں جووینائل جسٹس بورڈ اور ریلوے بورڈ سے منسلک ایک سینئر افسر کی معلومات پر عمل کرتے ہوئے، ریلوے پروٹیکشن فورس نے ایک این جی او کے ساتھ مل کر ان بچوں کو ‘بچایا’ اور اساتذہ کو گرفتار کیا۔ان کی گرفتاری کے وقت، آر پی ایف حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پانچوں افراد اپنے سفر سے متعلق دستاویزات پیش کرنے سے قاصر تھے۔ جس کی وجہ سے تعزیرات ہند کی دفعہ 370 (افراد کی اسمگلنگ) اور 34 (مشترکہ نیت) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ بچوں کو 12 دنوں کے لیے ناسک اور بھوساول کے شیلٹر ہوم میں لے جایا گیا کیونکہ حکام کو شبہ تھا کہ ان کی سمگلنگ کی جا رہی ہے۔ جب ان کے ناراض والدین نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ناسک ضلع انتظامیہ نے بچوں کو واپس بہار بھیج دیا۔
‘زندگی کا سب سے تکلیف دہ دور’
پانچ اساتذہ میں سے ایک اعجاز نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا سب سے خوفناک دور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دن ان کا نو سالہ بیٹا ٹرین میں بچوں کے ساتھ تھا۔ اعجاز کہتے ہیں کہ جب ہمیں ریلوے سٹیشنوں پر حراست میں لیا گیا تو انہوں نے ہمارے بیگ چیک کیے اور کہا کہ ہم چرس اور گانجہ (منشیات) اسمگل کر رہے ہیں۔ ہم بہار سے بچوں کو مہاراشٹر کے ایک مدرسے میں لے جا رہے تھے تاکہ وہ اچھی مذہبی تعلیم، کھانا اور رہائش حاصل کر سکیں۔ اعجاز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا واحد کمانے والا فرد ہے، جب وہ جیل میں تھا تو گھر میں کھانے کا بھی انتظام نہیں ہوتا تھا۔
ارریہ کے ایک استاد صدام نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کے والدین اس قدر غمزدہ ہو گئے کہ انہوں نے کئی دنوں تک کچھ نہیں کھایا۔ وہ کہتے ہیں، “میرے پاس تمام بچوں کے دستاویزات تھے اور میں نے ویڈیو کال کے ذریعے پولیس کو ان کے والدین سے رابطہ کرنے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے مقامی سرپنچ یا والدین سے اجازت نامہ طلب کیا۔ چونکہ ہمارے پاس یہ نہیں تھا، اس لیے پولیس نے فوری طور پر ہمارے خلاف بچوں کی سمگلنگ کا مقدمہ درج کر لیا۔ کسی کے خلاف اتنا سخت مقدمہ درج کرنے سے پہلے شواہد درکار ہوتے ہیں لیکن پولیس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ ایک قدم کتنی زندگیوں کو برباد کرے گا۔
بھارت ایکسپریس۔