Bharat Express

Modi is treading Swami Vivekananda’s way: ملک ایک خاندان، ویویکانند جیسے مودی کے خیالات

گزشتہ دو لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لیے مسلم ووٹ تقریباً 8 فیصد پر مستحکم رہا ہے۔ بی جے پی اس میں 5 فیصد ووٹ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دراصل اپوزیشن پارٹیوں میں اتحاد صرف بی جے پی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے نظر آرہا ہے۔

August 19, 2023

ہم  دن میں کئی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں، جن میں طنز،مذاق یا مذمت ہوتی ہے۔ ہم کبھی بھی اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ ان الفاظ کا خود پر یا دوسروں پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ لیکن فکر کرنے اور اس اثر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارا ایک بیان نہ صرف ہماری شخصیت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ہمارے باطن کا اظہار بھی کرتا ہے جس کی بہت سی مثالیں تاریخ میں  موجود ہیں۔جیسے گوتم بدھ نے ہر جاندار کے تئیں ہمدردی کا نظریہ پیش کرکے دنیا کو عدم تشدد اور امن کا احساس دلایا۔ چنانچہ سوامی وویکانند نے عالمی برادری کو ایسا احساس دلایا جس نے دنیا کو ایک خاندان بنا دیا اور اب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تنوع سے بھرے ملک کو خاندانی دھاگے میں جوڑ دیا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم مودی کے بیان کا اپنا ایک دائرہ ہے، لیکن روح میں سوامی وویکانند کے الفاظ کا احساس ہے۔ 1893 میں سوامی وویکانند نے عالمی مذہب کانفرنس میں ‘بھائیوں اور بہنوں’ کہہ کر اجتماع کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا دنیا کو ایک خاندان سمجھنے والے کے لیے اس سے بہتر کوئی خطاب ہو سکتا ہے؟ چنانچہ لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم مودی نے ‘ہم وطنوں’ کے بجائے ()پریوار جنوں’خاندان کے افراد’ سے خطاب کرکے دنیا بھر کے ممالک کو ایک نیا ویژن دیاہے۔ ملک کو گھر کے طور پر اور اہل وطن کو خاندان کے طور پر دیکھنے کا یہ نقطہ نظر گہرے اور دور رس معنی رکھتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے خطاب میں ہر لفظ کا مطلب ہے۔ اس کا عکس وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب میں بھی نظر آیا، جو سوامی وویکانند سے بے حد متاثر ہیں اور ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل بھی رکھتے ہیں۔

ملک کے 77ویں یوم آزادی کے موقع پر جب وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل پر مسلسل دسویں مرتبہ قومی پرچم لہرانے کے بعد قوم سے خطاب کیا تو ان کی تقریر میں وہی اعتماد اور لہجہ نظر آیا جو2014 کے ان کی پہلی تقریر میں تھا۔ لال قلعہ سے اپنے 90 منٹ کے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے عام ہندوستانیوں کے خوابوں اور امیدوں سے متعلق ہر موضوع پر بات کی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ملک کے حال کے ساتھ ساتھ روشن مستقبل کا وژن بھی پیش کیا۔ 2047 میں، جب ملک آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا، اس وقت دنیا میں ہندوستان کا ترنگا ترقی یافتہ ہندوستان کا ترنگا ہونا چاہئے۔”

مودی نے جو سب سے اہم بات کہی وہ یہ ہے کہ ان دنوں ترقی کی جو کہانی لکھی جا رہی ہے وہ مستقبل کے ہزار سال کیلئے بنیاد ہے۔ غلامی کے زمانے میں جن وراثتوں کو  بھلا دیا گیا تھا، وہ وراثت اب پوری شان و شوکت کے ساتھ ابھرنے کے لیے تیار ہے۔ دنیا میں  انسانی وسائل کا مرکز بننے والا ہندوستان معیاری انسانی وسائل اور پیداوار کے لیے مشہور ہونے جا رہا ہے۔ ثقافت کی نشاۃ ثانیہ، تہذیب کی باقیات سے نئی تہذیب کی تخلیق اور حکمرانی کو انسان دوست بنانے کی مہم – درحقیقت نئے ہندوستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم مودی جس طرح اپنی اگلی میعاد میں ہندوستان کو تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں، یہ اسی یقین کا مظہر ہے جو ہندوستان نے گزشتہ 9 سالوں میں عالمی سطح پر حاصل کیا ہے۔ آج دنیا میں ہندوستان کی جو تصویر ہے وہ کبھی ایسی نہیں تھی۔ ہندوستان، دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شمار بھارت،دنیا کی خدمت کے لیے تیار بھارت اور تشدد سے دور امن کی راہ پر گامزن بھارت – یہ ہے نیو انڈیا کی نئی تصویر۔ گزشتہ 9 سالوں میں بھارت نے 13 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالنے کا معجزہ کردکھایا ہے۔ یہ تعداد آسٹریلیا کی آبادی سے ساڑھے پانچ گنا زیادہ ہے۔

اپوزیشن کی دھڑکنیں بڑھائیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کو اگست کے دوسرے ہفتے میں پارلیمنٹ میں اگلی تحریک عدم اعتماد کی تیاری کرنے کا مشورہ دے کر اور 15 اگست کو یہ کہہ کر کہ وہ اگلے سال بھی ترنگا لہرانے آئیں گے،اپوزیشن کے دھڑکیں بڑھادی ہیں ۔ اپوزیشن کے تقریباً تمام رہنماؤں اس دعوے کی روشنی میں وزیر اعظم کو خوفزدہ قرار دیا۔ ملکارجن کھرگے، لالو پرساد، جے ڈی یو کے ترجمان اور دیگر ‘انڈیا’ لیڈروں نے وزیر اعظم کی تقریر کو ‘الوداعی تقریر’ قرار دیا۔

آئندہ 2024 کے عام انتخابات کے پیش نظر وزیر اعظم مودی کی تقریر میں یقینی طور پر حصولیابیوں ذکر تھا،تو اپوزیشن پر سیاسی حملہ کرنے سے بھی وہ نہیں چوکے۔ مودی پہلے بھی پریوار واد کے خاتمے، بدعنوانی اور خوشامدختم کرنے  جیسے نعرے دے چکے ہیں، لیکن 15 اگست 2023 کو ان نعروں کے تذکرے میں 2024 کے عام انتخابات کی تیاریاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ تجزیہ کار اسے بی جے پی اور نریندر مودی کا جارحانہ سیاسی انداز قرار دے رہے ہیں جب کہ اپوزیشن حسب توقع اسے نو تشکیل شدہ پلیٹ فارم ‘انڈیا’ کا خوف قرار دے رہی ہے۔

مودی جو مسلسل کہہ رہے ہیں شاید وہ اعتماد ہے جو انہوں نے عوام پر بنا رکھا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کو 31.1 فیصد ووٹ ملے تھے جو 2019 میں بڑھ کر 37.4 فیصد ہو گئے۔ ووٹوں کے لحاظ سے 1.56 کروڑ ووٹوں کا اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کے علاوہ ہر ذات پات کے گروپ میں بی جے پی کے ووٹوں میں اضافہ ہواہے۔ بی جے پی کے لیے سب سے زیادہ کشش دلتوں میں دیکھی گئی۔ جہاں بی جے پی کو 2014 میں دلت ووٹوں کا 24فیصدی ملا تھا وہیں 2019 میں یہ حصہ بڑھ کر 34فیصدی ہو گیا ہے۔ 2024 کے لیے بی جے پی نے پسماندہ مسلمانوں کو خوش کیا ہے۔ گزشتہ دو لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لیے مسلم ووٹ تقریباً 8 فیصد پر مستحکم رہا ہے۔ بی جے پی اس میں 5 فیصد ووٹ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دراصل اپوزیشن پارٹیوں میں اتحاد صرف بی جے پی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے نظر آرہا ہے۔ 2019 میں جو اپوزیشن پارٹیاں کمزورہوئی تھیں، انہیں ہر طبقے میں بی جے پی کی مضبوط دگرفت نے 2024 کے لیے بے چین کر دیا ہے۔

منی پور پر ہر اسٹیج سے بولنے لگے مودی

اپوزیشن نے جس منی پور کے مسئلے کو وزیراعظم کی خاموشی سے جوڑ رکھا تھا ،اس کی بھی ہوا نکالنے کی کوشش کرتے دکھ رہے ہیں وزیراعظم مودی۔پارلیمنٹ کے فلور پر پہلی بار منی پور پر بولنے کے بعد سے، پی ایم مودی نے بھی اس مسئلہ پر سیاسی حملوں کا جواب عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے اور پھر لال قلعہ سے منی پور کا حوالہ دیتے ہوئے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی منی پور میں امن کی واپسی کا کریڈٹ لینے کی واضح کوشش کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ انہیں اس سے سیاسی فائدہ بھی ملے گا۔ تاہم یہ بات بھی یقینی ہے کہ اپوزیشن اتنی آسانی سے منی پور میں نسلی تشدد کے واقعات کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش سے باز نہیں آئے گی۔

ہم وطنوں سے اپنے خطاب میں، ہندوستان کو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن کرنے کی پہل کا دعوی کرتے ہوئے، پی ایم مودی نے ایک سے زیادہ عوامی فلاحی اسکیموں کا بھی ذکر کیا۔ ان میں قابل ذکر ہیں۔

13 ہزار کروڑ کی وشوکرما اسکیم

گاؤں میں 2 کروڑ کی لکھ پتی دیدی اسکیم

شہر میں بے گھر افراد کے لیے سستے ہوم لون

ان اعلانات کو صرف انتخابی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایسے اعلانات تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ مستقبل میں بھی، لوک سبھا انتخابات سے پہلے، پی ایم مودی اس طرح کے عوام کو لبھانے والے اعلانات لیکر آتے رہنے والے ہیں۔

فارم، ریفارم اور پرفارم

فارم، ریفارم اور پرفارم کا نعرہ دے کر وزیر اعظم نے ترقی کی گاڑی کو ٹرپل ایکسلریشن دینے کی کوشش دکھائی ہے۔ عالمی سطح پر بھارت اور چین ترقی کی شرح کے لحاظ سے مثبت بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ یورپی یونین اور جاپان جیسے ممالک میں ترقی کی رفتار سست ہے۔ آئی ایم ایف نے امید ظاہر کی ہے کہ 2027 میں ہندوستان کی معیشت تیسرے نمبر پر آجائے گی۔ اگر ہندوستان 6.5 فیصد کی موجودہ شرح سے ترقی کرتا رہتا ہے تو اس میں فارم، ریفارم اور پرفارم کا نعرہ اہم کردار ادا کرے گا۔

نریندر مودی کا لال قلعہ سے بطور وزیر اعظم کیا گیا ایک اور اہم اعلان ملک کے قومی کردار کی تشکیل ہے۔ وشوامنگل سےاس قومی کردار کو جوڑتے ہوئے، پی ایم مودی نے ہندوستان کو ‘دنیا کا دوست'(وشومتر) بنانے کا ہدف پیش کیا۔ اب تک اس نئے کال کو ‘وشواگرو’ کے علاوہ ایک بڑی تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یقیناً اپوزیشن کا ایک تنقیدی نقطہ نظر ہے کہ مودی ‘وشوا گرو’ کے دعوے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ‘وشومتر’ بن کر خود کو مزید اہم اور لازمی بنا سکتا ہے۔ درحقیقت جب بھی دنیا کو اس کی ضرورت پڑی ہے، ہندوستان نے ہمیشہ اس شکل میں اپنا کردار دکھایا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کورونا کے دور میں سو سے زائد ممالک کو ویکسین دینے کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

ہیرو کے کردار میں مودی

وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ یقین دلاتے ہوئے بڑی بات کہی ہے کہ  ہندوستان کے اتحاد کوآنچ آئے ،نہ ایسی  میری بولی ہوگی  اور نہ ہی کوئی قدم ہوگا۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو زبان کی سطح پر مسلسل پست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور جس کے برے نتائج عام لوگوں میں ناخوشگوار واقعات کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ مودی نے ملک کو ہر لمحہ متحد کرنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرکے ایک بار پھر خود کو ایک وقف قوم پرست ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے۔

اپوزیشن کونریندر مودی کی ہیرو والی شبیہ سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن اس خوف کا غلط جواب لیکر اکثر اپوزیشن کے لیڈر سامنے آ جاتے ہیں اورغلطی کر بیٹھتے ہیں۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کی پارٹی بی جے پی کی مخالفت کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان اور راجیہ سبھا رکن  رندیپ سرجے والا نے بھی ان ووٹروں کو راکشش قرار دیا جو انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ یہ دراصل ایک ہیرو کے طور پر مودی کی شبیہ کو مضبوط کرتا ہے اور حملہ آور لیڈر خود شک کے دائرے میں آتا ہے۔ سوال یہی ہے کہ مودی  جس ہیرو کے رول کی تعمیر اپنے عمل اور جادوئی صلاحیت سے کررہے ہیں، کیا اس کا طلسم اپوزیشن ختم کر پائے گی؟

بھارت ایکسپریس۔

Also Read