If Modi is there, then it’s possible: یہ تقریباً ایک دہائی پہلے کی بات ہے جب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درد کو ایک گانے میں تبدیل کر دیا گیا تھا- سکھی سنیا تو خوب ہی کمات ہے، منگائی ڈائن کھائے جات ہے۔ یہ گانا تھا توفلمی ، لیکن اس وقت کے حالات کا درست اظہار بن گیا تھا۔ اس گانے میں ایک طرف خاندان کی بڑھتی ہوئی آمدنی کا تذکرہ ہے تو دوسری طرف مہنگائی کی شکایت بھی تھی جس کے سامنے یہ بڑھی ہوئی آمدنی بھی چھوٹی لگ رہی تھی۔ مہنگائی آج پھر ایک لعنت بن رہی ہے، لیکن مزے کی بات دیکھیں کہ جہاں یو پی اے کے دور میں کہا جاتا تھا کہ مہنگائی کی وجہ سے بڑھی ہوئی آمدنی کا بھی کوئی فائدہ نہیں، آج یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ اگر مہنگائی بڑھ رہی ہے تو آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دلیل دینے میں ملک کا عام آدمی حکمران جماعت کے لیڈروں کو بھی پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ یہی نہیں شرح نمو میں کمی، روپیہ کمزور ہونا، بےروزگاری جیسے وہ تمام مسائل جو اس وقت کی حکومت کے لیے ایک مسئلہ بن گئے تھے، اس کے بعد سے زیادہ مشکل حالات میں ہونے کے باوجود موجودہ حکومت کی پتی ہلتی نظر نہیں آتی۔ جن مسائل پر ملک میں روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے ہوتے تھے، آج ان ایشوز پر سڑکوں پر آنے کے بجائے عام عوام کو حکومت کی حفاظتی ڈھال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں، جب لوگوں کو اکٹھا کرنا پہلے سے زیادہ آسان ہے، وزیر اعظم مودی کے خلاف کوئی بڑا موبلائزیشن نہیں ہوا ہے۔ یہ تعداد اتنی غیر معمولی ہے کہ اس معاملے میں کسان تحریک بھی مستثنیٰ کہلائے گی۔
ملک کے ذہن میں یہ تبدیلی راتوں رات نہیں آئی۔ اس کی بنیاد میں اعتماد کا جذبہ ہے جو پچھلے سات آٹھ سالوں میں ایک بلند عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بلاشبہ اس کے پیچھے وزیر اعظم نریندر مودی کی کرشماتی قیادت اور ملک کے عوام کے ایک بڑے طبقے کی ان کے تئیں گہری محبت اور غیر متزلزل یقین ہے جس کے سامنے منطقی ہونے کے باوجود مہنگائی، بے روزگاری جیسے اپوزیشن کے الزامات بھی منہدم ہو جاتے ہیں۔ مہنگا ایندھن مہنگائی کی جڑ ہے اور حکومت خود کہتی ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں کمی کے باوجود وہ ڈیزل-پٹرول کی قیمتوں میں کمی نہیں کر رہی کیونکہ یہ مختلف طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ قوم کی تعمیر کے لیے منصوبوں کے ساتھ ساتھ معاشی وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ ان اسکیموں سے مستفید نہ ہونے کے باوجود ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مہنگا ایندھن خریدنے کے بعد بھی حکومت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ان عوامی فلاحی اسکیموں کا اثر یہ ہے کہ ایک طرف ملک کے 80 کروڑ غریبوں کو مفت اناج ملنے کی وجہ سے بھوکے سونے کا مسئلہ نہیں ہے۔ 11 کروڑ کسانوں کو ایک سال میں تین بار کسان سمان ندھی کا فائدہ ملنے سے کھیتی کی بہت سی مشکلات آسان ہو گئی ہیں۔ 3 کروڑ سے زیادہ لوگ، جو فٹ پاتھوں اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کے سروں پر ٹھوس چھت مل گئی ہے۔ 11 کروڑ ماؤں بہنوں کو عزت گھر (بیت الخلاء) ملے ہیں، جبکہ 9 کروڑ خواتین کو مفت گیس سلنڈر حاصل کرکے چولہا جلانے کی جان لیوا مجبوری سے نجات ملی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کی مدد سے دو کروڑ خاندانوں کی متوقع زندگی کو تقویت ملی ہے۔ دوسری جانب آج قومی تعمیر پر ریکارڈ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ملک میں عالمی معیار کے ایکسپریس وے بنائے جا رہے ہیں اور ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کو از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ملک تیزی سے خود انحصاری کی طرف گامزن ہو رہا ہے، ملک کے لوگ ایک نئی قسم کے قومی فخر سے متاثر ہو رہے ہیں جس کا پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔
اگر ہم اسے عالمی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ایک طرف ہندوستان نے جس طرح سے دنیا کو 100 سال میں کورونا جیسی بدترین وبا اور دوسری طرف روس یوکرین جنگ کے درمیان تقسیم کیے گئے بحران کے ماحول میں خود کو سنبھالا ہے۔ اس سے صرف ہمارا ملک ہی نکل سکتا ہے، اعتماد اور فخر سے نہیں بھرا ہوا ہے، لیکن آج پوری دنیا میں ہندوستان کے بارے میں ایک مثبتیت واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ کورونا کے دور میں جب چاروں طرف موت کے ہولناک منظر کی وجہ سے ایک طرح کی قومی اداسی دکھائی دے رہی تھی، وزیر اعظم مودی نے آگے بڑھ کر مشکلات پر قابو پانے کے لیے ملک کے عوام میں اعتماد پیدا کیا اور پھر اسے سچ کر دکھایا۔ سربراہان مملکت کی سطح پر ایسی مثال کم ہی ملتی ہے۔ یہی نہیں، جب بہت سے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے شہریوں کی جان بچانے میں ناکام رہے، ہم نے 150 سے زائد ممالک میں جان بچانے والی ادویات اور ویکسین فراہم کیں۔ جب سب سے بڑی معیشتیں زوال پذیر تھیں، ہماری معیشت نے کئی ہچکیوں کے باوجود دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن کر بہترین شرح نمو دکھائی۔ آج ہم ان علاقوں میں اپنی صلاحیت دکھا رہے ہیں جہاں پہلے ہماری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ خوش قسمتی سے، ملک کو دستیاب مضبوط قیادت کی وجہ سے، آج دنیا کے ہر قابل اعتماد ادارے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ماہرین نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ہندوستان کے پاس عدم استحکام نہیں بلکہ نئے امکانات ہیں۔
وزیر اعظم مودی کی موثر اور مضبوط قیادت کی وجہ سے آج ہندوستان عالمی سطح پر اپنے ملک اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات کرنے کے قابل ہے۔ روس یوکرین جنگ کے دوران جہاں امریکہ جیسا طاقتور ملک جنگ زدہ یوکرین سے اپنے شہریوں کو نکالنے میں ناکام رہا وہیں بھارت ’آپریشن گنگا‘ کے تحت 20 ہزار سے زائد شہریوں کو نکالنے میں کامیاب رہا۔ یہی نہیں، ایک سال سے جاری اس جنگ میں دونوں ملکوں کو امن کی میز پر لانے کی واحد امید ہندوستان ہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ وزیر اعظم مودی کی شخصیت اور شخصیت ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں جس طرح انہوں نے ہندوستان کی شبیہ پوری دنیا کے سامنے پیش کی ہے، اس سے نہ صرف ملکی سیاست میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک عالمی رہنما کے طور پر اپنی شبیہ کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ہندوستان دنیا کی سپر پاورز پر انحصار کرتا تھا – آج وہ عالمی سفارت کاری میں ان سپر پاورز کے اعتماد کا مرکز بن چکا ہے۔ خارجہ پالیسی اس سنہری دور میں پہنچ چکی ہے، جہاں ملک اب قومی مفاد سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں ہے، جہاں بھارت کو بیک وقت امریکہ اور روس جیسی سپر پاورز سے تعلقات رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلاشبہ وزیر اعظم مودی کے اقتدار کے پچھلے نو سالوں میں ایک ایسا ‘نیو انڈیا’ ابھر کر سامنے آیا ہے جو دوسرے ممالک کی سوچ اور دباؤ میں نہیں چلتا بلکہ اپنے عزم کے ساتھ چلتا ہے، جسے لوگوں کے ایمان اور اعتماد سے تقویت ملتی ہے۔ 140 کروڑ ہم وطن۔ گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں صدر کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر بحث کے جواب میں وزیر اعظم نے ہم وطنوں کے اس اعتماد کو اپنی سب سے بڑی طاقت قرار دیا تھا۔ اسی تقریر میں وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ان پر لوگوں کا اعتماد اخباری سرخیوں اور ٹی وی چہروں سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ صرف کیا ہے۔ درحقیقت، یہ ملک کی سیاسی اپوزیشن کے ‘جھوٹ’ کے جواب میں کہا گیا ہو گا، لیکن اس سے اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ ‘مودی ہے تو ممکن ہے’ محض ایک نعرہ نہیں بن گیا ہے، بلکہ ایک قوم کا اظہار ہے۔ مہم
-بھارت ایکسپریس