Bharat Express

Chandrayaan-3 recorded in infinite history, mission human welfare: لامحدود تاریخ میں درج ہوا چندریان،انسانی بہبود کا مشن

سوال یہ ہے کہ دنیا کے ممالک کی دلچسپی چاند میں اچانک اتنی کیوں بڑھ گئی ہے؟ اس کا جواب ایک سال قبل روسی خلائی ایجنسی راسکاسماس کا ایک اعلان ہے جس میں اس نے اعلان کیا تھا کہ ’’سال 2040 تک وہ چاند پر ایک کالونی بسائے گا، یعنی انسانی بستی، جہاں سانس لینے کے لیے آکسیجن، پینے کے لیے پانی اورکھانے کا سامان ہوگا۔

August 26, 2023

خلائی سائنس کی تاریخ میں23 اگست 2023 کی تاریخ  ہندوستان کی سنہری کامیابی کے طور پر درج ہو گئی۔ شام 6 بج کر04 منٹ پر بھارت کا چندریان جب چاند کے جنوبی قطب پر اترا تو دنیا حیران  رہ گئی۔ چاند پر پہنچنے کے بعد، چندریان-3 نے  پیغام بھیجا – “میں اپنی منزل پر پہنچ گیا ہوں…” یہاں ‘میں’ سے مراد پوری زمین ہے۔ یہ کارنامہ پوری نسل انسانی کا ہے۔ ‘بھارت اب چاند پر ہے’ جیسے ہی بھارتی سائنسدانوں نے اعلان کیا، پورا ہندوستان جشن میں ڈوب گیا ۔ پہلی بار کسی بھی ملک کے خلائی جہاز نے چاند کے قطب جنوبی پر کامیاب اور محفوظ لینڈنگ کی۔ بھارت سے پہلے امریکہ، روس اور چین نے بھی ایسی کوششیں کی تھیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے تھے۔

برکس سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ گئے وزیر اعظم نریندر مودی اس لمحے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔جنوبی افریقہ ، جہاں سے مہاتما گاندھی نے انسانوں میں فرق کے خلاف ستیہ گرہ کا آغاز کیا،اسی سرزمین سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک اور دنیا کو فخر کے ساتھ خطاب کیا، ۔ پی ایم مودی نے کہا کہ اس طرح کے تاریخی واقعات قومی زندگی کا ابدی شعور بن جاتے ہیں۔ یہ لمحہ ناقابل یقین ہے۔ یہ لمحہ شاندار ہے۔ یہ لمحہ ترقی یافتہ ہندوستان کے صداوں  کا ہے۔ یہ مشکلوں کے سمندر کو پار کرنے کا لمحہ ہے۔ یہ فتح کے چاند کی راہ پر چلنے کا لمحہ ہے۔

چندریان 3 کی کامیابی کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں دنیا کے کئی ممالک نے مسلسل اس طرح کی کوششیں کیں لیکن سب ناکام رہے۔ روس کے لونا 25 مشن کی ناکامی اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ناسا سمیت دنیا کے کئی سربراہان مملکت اور سائنسدانوں نے اس شاندار کامیابی پر ہندوستان اور ہندوستانی سائنسدانوں کو مبارکباد دی ہے۔ یہی نہیں، سبھی نے ہندوستان کی صلاحیت پر خوشگوار حیرت کا اظہار بھی کیا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا ہے کہ لینڈر کو چاند کے قطب جنوبی کے قریب اتار کر بھارت نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ بھارت اب خلائی طاقت بن چکا ہے۔ ڈیوڈ وان ریلی نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھاہے کہ بھارت کی کامیابی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم علامت ہے۔ دی اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ ہندوستان کا لینڈر  نہ صرف چاند پر اترا بلکہ یہ کارنامہ اسٹائل کے ساتھ کیا۔ اخبار نے مزید لکھا کہ ملک میں اگلے سال انتخابات ہیں اور یہ تصویر مودی کے قوم پرست پیغام میں یہ شبیہ فٹ بیٹھتی ہے۔

چندریان کے سفر کا آخری پڑاؤ جتنا خوشگوار رہا ہے، سائنسی نقطہ نظر سے اس کا سفر اتنا ہی مشکل اور اتنا ہی معجزاتی بھی رہا ہے، کیونکہ زمین پر اس سے زیادہ قیمت پر خلائی فلمیں بن رہی ہیں جتنا کہ بھارت چاند پر ریسرچ مشن چلا رہا ہے۔  چندریان 3 مشن کی کل لاگت 615 کروڑ روپے ہے۔ جب کہ خلائی تحقیقی فلم انٹر اسٹیلر 1062 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی اور ہالی ووڈ فلم گریویٹی 644 کروڑ روپے کی لاگت سے بنائی گئی ہے۔

چندریان 3 کو آندھرا پردیش کے سری ہری کوٹا سے 14 جولائی کو صبح 3.35 بجے لانچ کیا گیا تھا۔ 23 اگست کو شام 6.4 بجے چندریان 3 لینڈر چاند کے جنوبی قطب پر اترا۔ اس دوران چندریان 3 نے 41 دنوں میں 3.84 لاکھ کلومیٹر کا سفر کیا۔ چندریان 3 کی کامیابی کے بعد بھارت کے لیے نئے بازاروں کے دروازے بھی کھلنے والے ہیں۔ خلائی کاروبار، کرائیوجینک ٹیکنالوجی، راکٹ سائنس، خلائی تحقیق، ڈرون سیکٹر، ڈیٹا تجزیہ، ڈیٹا اسٹوریج، مصنوعی ذہانت، جی پی ایس ریسرچ، ریموٹ سینسنگ جیسے شعبوں میں کاروبار کے لامحدود امکانات ہوں گے۔ اسپیس ایکس جیسی امریکی کمپنیاں چاند پر ٹرانسپورٹ کو مستقبل کے ایک بڑے کاروبار کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ بھارت چندریان کے ذریعے اس بڑے کاروبار میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپر کے اندازے کے مطابق، چاند پر نقل و حمل کا کاروبار 2040 تک 42 بلین ڈالر تک ہو سکتا ہے۔

دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لیے چاند اب بھی کسی معمہ سے کم نہیں ہے۔ چاند کو چھونے کے لیے مختلف ممالک کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ایک بار پھر چاند کی دوڑ شروع ہو چکی ہے؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پوری دنیا چاند کو چھونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ اگلے سال سے 2027 تک، مزید آٹھ لانچیں صرف چاند کے لیے ہونے والی ہیں۔ ناسا، جو تقریباً 50 سال سے چاند کو بھول چکا تھا، 2025 میں چاند مشن آرٹیمیس-2 شروع کرنے والا ہے، جس میں وہ ایک بار پھر انسانوں کو چاند کی سطح پر اتارے گا۔ اس سے پہلے امریکہ اس سال چاند پر مزید دو مشن بھیجنے جا رہا ہے۔ دوسری جانب روس ہے جس نے آخری بار 47 سال قبل چاند کو چھوا تھا، اس نے رواں ماہ 10 اگست کو مون مشن لونا 25 کا آغاز کیا تھا تاہم وہ کریش کر گیا۔ اسی وقت، 2024-25 میں جاپان مون مشن لیوپیکس (LUPEX) لانچ کرے گا۔ چین 2024 اور 2027 کے درمیان چاند پر تین مشن بھیجے گا۔ 2030 میں چین اپنا پہلا انسان بردار مشن چاند پر بھیجے گا۔ اسرائیل بھی  2024 بیرےشٹ -2 لانچ کر رہا ہے۔ یہ کئی سالوں تک جاری رہنے والا مشن ہے جس میں پہلی بار دو لینڈرز کو ایک ساتھ بھیجا جا رہا ہے۔

تو کیا اکیسویں صدی میں چاند کی دوڑ مزید تیز ہونے والی ہے؟ سوال یہ ہے کہ دنیا کے ممالک کی دلچسپی چاند میں اچانک اتنی کیوں بڑھ گئی ہے؟ اس کا جواب ایک سال قبل روسی خلائی ایجنسی راسکاسماس کا ایک اعلان ہے جس میں اس نے اعلان کیا تھا کہ ’’سال 2040 تک وہ چاند پر ایک کالونی بسائے گا، یعنی انسانی بستی، جہاں سانس لینے کے لیے آکسیجن، پینے کے لیے پانی اورکھانے کا سامان ہوگا۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ چاند کی جنوبی جانب پانی اور آکسیجن کا امکان ہے۔ 25 ستمبر 2009 کو اسرو نے پہلے چندریان مشن کے بعد چاند پر پانی کے بارے میں کہا تھا۔ آگے چل کر چاند پر مون سٹیشن کا خیال سچ ہو سکتا ہے۔ چاند کی دوڑ کے پیچھے ایک بڑی وجہ چاند پر معدنیات کے بے پناہ ذخائر کا امکان  بھی ہے۔

قریب 45 سال قبل امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے چاند پر چھپے تیجوری کے بارے میں کئی بڑے دعوے کیے تھے۔ اپولو 17 مشن کے دوران ناسا نے بتایا تھا کہ چاند پر ہیلیم، آرگن، نیون جیسی گیسوں کی پتلی تہہ موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چاند کے پاس ہیلیم تھری کی شکل میں توانائی کے لامحدود ذخائر موجود ہیں جس سے آنے والی کئی صدیوں تک زمین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور یہ ماحول کے لیے بھی دوستانہ ہوگا۔ چاند پر تقریباً 10 لاکھ میٹرک ٹن ہیلیم تھری موجود ہے جو کہ زمین کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہے جس میں سے صرف ایک چوتھائی یعنی تقریباً ڈھائی  لاکھ ٹن ہیلیم تھری کو زمین پر لایا جائے تو اگلی پانچ صدیوں کے لیے توانائی کی طلب پوری کی جا سکتی ہے۔

ہیلیم تھری کے علاوہ بھی سائنس دانوں کو چاند پر ایسے کئی قیمتی مادوں کی تلاش ہے۔ بہت سے سائنس دانوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ چاند کے جنوبی قطب پربنے گڑھوں میں  2 ارب سالوں سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی ہے۔ یہاں درجہ حرارت منفی 203 ڈگری سیلسیس تک رہتا ہے۔ درجہ حرارت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے یہاں کی مٹی میں جمع ہونے والے مواد کو لاکھوں سالوں سے محفوظ ہیں  جو زمین کے وجود کے راز سے پردہ اٹھانے میں مدد کرے گا۔ قطب جنوبی تکسب سے پہلے پہنچنے والا ہندوستان اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

خلا میں ہندوستان کا سفر بلا روک ٹوک جاری ہے۔ چاند اس میں صرف ایک مرحلہ ہے۔ اس سال ہندوستان کے انتہائی اہم خلائی پروگرام میں، اسرو انسانوں کو خلا میں بھیجنے اور انہیں بحفاظت واپس لانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ہیومن مشن گگنیان نامی اس مشن کی تیاری آخری مرحلے میں ہے۔ 2030 تک اسرو نے ایک خلائی اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ مستقل طور پر خلا میں رہ کر اس کی تہوں کو کھولا جاسکے۔ 2025 میں دو متعلقہ راکٹ لانچ کیے جانے کی امید ہے۔ اسرو شُکریان-1 کو وینس پر بھیجنے کی بھی تیاری کر رہا ہے۔ آدتیہ ایل-1کو چاند اور مریخ سے آگے سورج کی تحقیقات کے لیے بھیجا جائے گا جو سورج پر تحقیق کرے گا۔

ہندوستان آج چاند پر پہنچ گیا ہے لیکن اس کایہ  سفر آسان نہیں رہا۔ ہندوستانی سائنسدانوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 60 سال قبل 21 نومبر 1963 کو ایک سفر کی شروعات ہوئی تھی ،جب امریکی خلائی ایجنسی ناسا سے خریدے گئے آدھے ادھورے راکٹ کو سائیکل پر رکھ کر خلاء تک پہنچنے کے مشن  کو لیکر وکرم سارابھائی نکلے تھے اور کیرل کے تھونبا میں ایک چرچ کو خلائی اسٹیشن بنایاتھا۔ آج 6 دہائیوں کے بعد وہ سفر چاند پر پہنچ چکا ہے۔ ہندوستان نے چندریان -3 کے لینڈر کا نام وکرم سارا بھائی کے نام پر رکھ کر ملک کے خلائی پروگرام کے والد وکرم سارا بھائی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے۔ اُس وقت کا INCOSPAR یعنی انڈین نیشنل کمیٹی فار اسپیس اینڈ ریسرچ بعد میں چل کر اسرو ہوگیا۔

19 اپریل 1975 کو جب ہندوستان نے پہلا سیٹلائٹ ‘آریہ بھٹہ’ لانچ کیا تو بنگلور میں ایک ٹوائلٹ ہی ڈیٹا سینٹر تھا۔ جب ہندوستان 1980 میں روہنی سیٹلائٹ لانچ کر رہا تھا تو اسرو نے راکٹ کے پے لوڈ کو لے جانے کے لیے بیل گاڑی کا استعمال کیا اور پوری دنیا نے حیرت سے دیکھا۔ 1980 میں ہندوستان نے روہنی سیٹلائٹ کو زمین کے مدار میں قائم کردیا۔ 1983 میں INSAT یعنی انڈین نیشنل سیٹلائٹ نیٹ ورک کا قیام ہندوستان کے لیے ایک بڑی چھلانگ تھی۔ اسرو نے 1993 میں پی ایس ایل وی اور جی ایس ایل وی کا کامیاب تجربہ کیا۔ 2008 میں، چندریان 1 مشن بھی چاند کے مدار تک پہنچنے والے چند مشنوں میں سے ایک بن گیا۔ 2014 میں بھیجے گئے مریخ آربیٹل مشن نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ 2017 میں، اسرو نے ایک ساتھ 104 ملکی اور غیر ملکی سیٹلائٹ لانچ کرکے تاریخ رقم کی۔ ایک کے بعد ایک کامیاب ریکارڈ بنا کر دنیا کی نمبر ایک خلائی ایجنسی اسرو نے کمرشیل لانچنگ کی بادشاہت حاصل کر لی ہے۔ 60 سال کی تاریخ میں اسرو نے 34 ممالک کے 424 سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں۔ خلائی مشنوں میں اسرو کی کامیابی کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ہندوستانی سائنسدانوں نے کم وسائل میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے اور چاند کے جنوبی قطب پر پہنچ کر اسے مزید مضبوط کیا ہے۔

ہندوستان کے لیے، چندریان -3 کی کامیابی چاند پر بیس بنانے میں ایک اہم موڑ ہے، لیکن اس کا اعلان کردہ مقصد انسانی بہبود ہے۔ انسانی فلاح و بہبود سائنسی ترقی کا حتمی مقصد ہونا چاہیے۔ ہندوستان نے وسودھیوا کٹمبکم کی پالیسی کو اپناتے ہوئے ہمیشہ انسانیت کے مقصد کو سامنے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی چندریان 3 کی کامیابی کو انسانیت کی کامیابی قرار دیا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read