عالمی سطح پر اپنی شدت پسندی کی وجہ سے الگ تھلگ برقرار افغانستان کی طالبان حکومت نے ایک اور بڑا فیصلہ کرلیا ہے جس سے امریکہ اور یوروپ کو ایک جھٹکا قرار دیا جاسکتا ہے ۔ چونکہ افغانستان میں بہت جلد بے حجاب خواتین نظر نہیں آئیں گی، پورا شرعی نظام ایک خاتون کیلئے زمین پر آپ کو نظرآئے گا چونکہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے افغان حکام کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امارت افغانستان میں فوری طور پر اخلاقی قانون کے نفاذ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس نئے قانون میں طالبان حکام کے مطابق معاشرے میں خواتین کے حقوق کو اسلام کے دیے ہوئے ضابطہ اخلاق کے تحت تحفظ دے دیا گیا ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے اس نئے اخلاقی قانون کا اعلان پچھلے ماہ کیا گیا تھا۔ اس نئے اخلاقی ضابطے میں خواتین کا حجاب کرنا ، اپنے چہرے ، سر اور جسم کو ڈھانپنے کے علاوہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنی آوازوں کو بھی آہستہ رکھنا شامل ہے۔بتایا گیا ہے کہ 35 دفعات پر مشتمل اخلاقی قانون کو افغان خواتین کے حقوق اور احترام و مقام کے تحفظ اور انہیں معاشرے میں قانون شکنوں کی رسائی سے دور رکھنے کی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔کہا گیا ہےکہ اس قانون کے ذریعےمعاشرے میں برائی کا راستہ روکا جا سکے گااور خیرسگالی ہو سکے گی۔ اس قانون کے نفاذ سے ملک میں مردو زن سبھوں کے رویے اور لائف سٹائل میں تبدیلی آنے کے نتیجے میں معاشرے کے رہنے بسنے کا انداز تبدیل ہو سکے گا۔
وہیں دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا ہے افغان حکام عالمی برادری کے ساتھ روابط کے لیے پُر عزم ہے، اس سے قبل نئے اخلاقیات سے متعلق قانون میں خواتین کے حقوق پر تناؤ پیدا کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے تنبیہہ کی ہے کہ نیا قانون جس میں خواتین کو مکمل طور پر پردہ کرنے اور عوامی مقامات پر آواز اونچی نہیں کرنے کا کہا گیا ہے، سے دیگر ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ روابط کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
نائب حکومت کے ترجمان حمد اللہ فطرت سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے ترجمان کے تبصرے پر ردعمل دے رہے تھے، جس میں اقوام متحدہ کے ترجمان نے طالبان حکام سے بات چیت جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ حکومت کے ترجمان حمداللہ فطرت نے صحافیوں کو وائس میسج کے ذریعے بتایا کہ حکام ’اسلامی قانون‘ کے مطابق تمام ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مثبت بات چیت کے لیے پُر عزم ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔