Bharat Express

International Women’s Day 2023: سیکھنے کی خواہش، ہندوستان میں روہنگیا خاتون نے اس طرح سے اپنے خوابوں کو کیا شرمندہ تعبیر

Tasmida Johar: انسان میں اگر کچھ کردکھانے کی اور سیکھنے کا جذبہ ہو تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ 24 سال کی تسمیدہ جوہر نے اس کہاوت پر عمل کرنے کا کام کیا ہے۔ آج آپ کو ان کی کہانی بتاتے ہیں۔

روہنگیا مسلم خاتون تسمیدہ جوہر۔ (Image Source: UN News)

Rohingya Woman: تسمیدہ جوہرشاید ہی یہ نام آپ نے پہلے سنا ہوگا۔ یہ نام ہے ہندوستان کی یونیورسٹی میں داخلہ لے کرگریجویشن مکمل کرنے والی ایک روہنگیائی لڑکی کا۔ تسمیدہ نے دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی۔ وہ دسمبر 2022 میں ہندوستان کی پہلی روہنگیا گریجویٹ لڑکی بنیں۔ اب وہ ولفرڈ لائریونیورسٹی ٹورنٹو سے ایک کنفرمیشن  لیٹرکا انتظار کررہی ہیں۔

دراصل، پناہ گزینوں کی تعلیم تک پہنچ کراقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یواین ایچ آرسی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پرصرف تین فیصد نوجوان پناہ گزیں اعلیٰ تعلیم (ہائرایجوکیشن) حاصل کرسکے ہیں۔ تسمیدہ جوہربھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ اتنا ہی نہیں دہلی سے گریجویشن کرکے اب وہ اگست میں کناڈا جانے کی تیاری کررہی ہیں۔ ان کے لئے یہ سفراتنا آسان نہیں رہا ہے۔

تعلیم کے لئے سب کچھ چھوڑا

تسمیدہ جوہرکواپنی تعلیم کے لئے اپنا نام بدلنا پڑا، اپنا گھربدلنا پڑا اوریہاں تک اپنا ملک تک بدلنا پڑگیا۔ انہوں نے نئی زبان سیکھی، نئی تہذیب میں رہنا سیکھا، اس کے بعد ان کا خواب پورا ہوسکا۔ وہ اپنے ملک میں استحصال سے بچنے کے لئے ہندوستان آگئی تھیں۔ دسمبر 2022 میں وہ پہلی روہنگیا گریجویٹ بنی تھیں۔ اب وہ ولفرڈ لائریونیورسٹی،  ٹورنٹوسے کنفرمیشن کے  انتظارمیں ہیں۔

تسمیدہ جوہرنے ‘دی انڈین ایکسپریس’ کو بتایا کہ وہ حقیقت میں 24 سال کی ہیں، لیکن یواین ایچ آرسی کارڈ کے لحاظ سے ان کی عمر26 سال ہے۔ روہنگیا والدین عام طور پرلڑکی کی عمرکو دو سال بڑھا دیتے ہیں، تاکہ ان کی جلدی شادی ہوسکے۔ اپنے نام سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان کا اصلی نام تسنیم فاطمہ ہے، لیکن میانمارمیں پڑھنے کے لئے آپ کے پاس روہنگیا نام نہیں ہو سکتا ہے، اس کے لئے ایک بودھ نام رکھنا ہوتا ہے۔

روہنگیاوں کی آپ بیتی

تسمیدہ جوہربتاتی ہیں کہ میانمارکے لوگوں کے لئے روہنگیا کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے۔ اسکول میں ان کے لئے الگ کلاس ہوتی ہیں۔ امتحان ہال میں انہیں سب سے دورکی بینچ پربٹھایا جاتا ہے۔ 10ویں کلاس تک ٹاپ کرنے پران کا نام میرٹ میں نہیں آتا ہے اوراگرکوئی روہنگیا کالج جانا چاہتا ہے توآپ کو یانگون (ملک کی سابقہ راجدھانی) جانا پڑتا ہے۔ اس لئے شاید ہی کبھی کوئی روہنگیا گریجویٹ ہو پاتا ہے۔ سرکاری دفاترمیں نوکری نہیں دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم ووٹنگ میں بھی حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read