Bharat Express

Riyadh Fashion Week: سعودی عرب میں ہونے جا رہا ہے ’ریاض فیشن ویک شو’ ، مذہبی حلقوں میں بڑھے گی ناراضگی ؟

محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب میں بہت سی بڑی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سعودی عرب میں اس سے قبل خواتین کو ہمیشہ پردہ یعنی برقعہ، نقاب یا حجاب میں باہر جانے کی اجازت تھی۔ اسی سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ اکیلے سفر کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ تھیٹرز پر سے پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے۔

سعودی عرب میں 20 اکتوبر سے ریاض فیشن ویک شروع ہونے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں اس طرح کی تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس فیشن شو میں تیس برانڈز اپنے ڈیزائن دکھائیں گے۔ یہ تقریب 20 سے 23 اکتوبر کے درمیان ہو گی۔

سعودی عرب جو مذہبی روایات اور اقدار عمل عمل آوری کے معروف ہے،ایسے  میں منعقد ہونے والے اس ایونٹ کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس سے قبل بھی اپریل 2018 میں ایک بار پرائیویٹ تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا تاہم اسے مکمل طور پر پرائیویٹ رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ داخلے کے حوالے سے بھی سختی کی گئی۔ جبکہ اس بار فیشن ویک کا انعقاد سرکاری سعودی حکومت کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنے کے لیے خود کو ایک نئے انداز میں پیش کر رہا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب عالمی ضروریات اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ثقافت اور فیشن کے میدان میں خود کو ترقی دے کر اپنی الگ شناخت بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ فیشن ویک ایک شاندار تقریب ہونے کی توقع ہے۔ تاہم  مذہبی حلقوں میں ایسی تقاریب کی مخالفت کی جاتی ہے ۔

2017 میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے سعودی عرب تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ خام تیل پر معیشت کا انحصار کم کرنے کے لیے سلمان نے یا تو بہت سے قدامت پسند قوانین کو ختم یا کم کر دیا۔ محمد بن سلمان کا وژن 2030 اس کا ایک اہم منصوبہ ہے۔

اپریل 2018 میں بھی سعودی عرب میں فیشن ویک کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن یہ تقریب نجی طور پر منعقد کی گئی۔ اس فیشن شو میں صرف خواتین کو ہی انٹری دی جارہی تھی۔ لیکن اس بار اس تقریب کا اہتمام سعودی فیشن کمیشن کر رہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ 20 سے 23 اکتوبر کے درمیان ہونے والے اس فیشن شو میں سعودی عرب کی اہم شخصیات بھی شرکت کریں گی۔

سعودی فیشن کمیشن کے سی ای او براک کیک کا کہنا ہے کہ “ہم پہلی بار اس طرح کی تقریب منعقد کر رہے ہیں۔ اس تاریخی تقریب میں ہم نے مقامی فیشن برانڈز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی برانڈز کو بھی مدعو کیا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا اگلا بین الاقوامی فیشن سینٹر بننے جا رہا ہے۔ یہ شو ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرے گا، جس سے ہمارے برانڈز کو دنیا کے دوسرے ممالک سے جڑنے کا موقع ملے گا۔”

‘دی سٹیٹ آف فیشن ان دی کنگڈم آف سعودی عربیہ 2023’ کی رپورٹ کے مطابق سعودی فیشن انڈسٹری میں گزشتہ چند سالوں میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ فیشن انڈسٹری نے 2022 میں سعودی عرب کی کل جی ڈی پی میں 1.4 فیصد حصہ ڈالا۔ یعنی سعودی عرب میں فیشن انڈسٹری کا کاروبار تقریباً 12.5 بلین امریکی ڈالر تھا۔ اس کے علاوہ کل سعودی افرادی قوت کا تقریباً دو فیصد یعنی دو لاکھ تیس ہزار لوگ فیشن انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی جی ڈی پی میں فیشن کا حصہ 2021 سے 2025 کے درمیان 48 فیصد بڑھنے کی توقع ہے۔ اس قابل ذکر نمو سے سعودی عرب کی معیشت کو فروغ ملنے کی امید ہے۔

سعودی عرب میں بہت سی بڑی سماجی تبدیلیاں

محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب میں بہت سی بڑی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سعودی عرب میں اس سے قبل خواتین کو ہمیشہ پردہ یعنی برقعہ، نقاب یا حجاب میں باہر جانے کی اجازت تھی۔ اسی سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ اکیلے سفر کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ تھیٹرز پر سے پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے۔

علما کے اختیارات  کو بھی کم کر کے سعودی عرب سماجی، قانونی اور سیاسی زندگی کی سخت مذہبی روایات سے خود کو الگ کر رہا ہے۔ جولائی 2021 میں سعودی عرب نے ایک ترمیم منظور کی جس میں بالغ خواتین کو باپ یا دوسرے مرد رشتہ داروں سے اجازت لیے بغیر آزادانہ زندگی گزارنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے خواتین کو کسی مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مکہ جانے کی اجازت دی ہے۔

تاہم سلمان سے پہلے عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے بھی سعودی عرب میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ لیکن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سعودی عرب تیزی سے لبرل بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تاکہ ملک میں کاروبار اور سیاحت کے لیے بہتر ماحول پیدا کیا جا سکے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read