فرانس میں پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے لیے شہری بڑی تعداد میں نکلے تاہم الیکشن کے نتیجے میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انتخابات کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت اقتدار میں آ سکتی ہے۔امیگریشن مخالف اور یورپی یونین کی ناقد سمجھی جانے والی رہنما مارین لی پین کی پارٹی نیشنل فرنٹ کے اقتدار میں آنے کا واضح امکان ہے۔
ایگزٹ پول کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میرین لی پین کی قیادت والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی (آر این) نے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تقریباً 34 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس طرح اس جماعت کو پارلیمان کی تقریبا 240 سے 270 کے درمیان نشستیں حاصل ہونے کا غالب امکان ہے۔اس کے برعکس صدر ماکروں کی قیادت والے حکمراں اتحاد نیو پاپولر فرنٹ (این پی ایف) کو 180 سے 200 کے درمیان ہی سیٹیں ملنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پول جائزوں کے مطابق آر این کو 33 اعشاریہ دو فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے جبکہ بائیں بازو کے اتحاد کو 28.1 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ صدر ماکروں کا اتحاد 21 فیصد ووٹ کے ساتھ کافی پیچھے ہے۔پناہ گزینوں کی مخالف میرین لی پین کی جماعت نیشنل ریلی کے حامیوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا جب کہ پارٹی کی صدر نے کہا کہ ان انتخابات میں ”ماکروں کے بلاک کو ختم کر دیا گیا ہے۔پیرس سے فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی 33 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے آگے ہے۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق بائیں بازو کی جماعت پاپولر فرنٹ 28 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔فرانسیسی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ صدر میکروں کی جماعت 20 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فرانس میں انتخابات کے پہلے مرحلے کا ٹرن آؤٹ 66.7 فیصد رہا۔برطانوی نشریات ادارے کا کہنا ہے کہ 1997 کے بعد یہ اب تک کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔
بھارت ایکسپریس۔