بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ ہندوستان کی ترقی کی غلط تصویر کشی
تحریر: ششی شیکھر ویمپتی،پرسار بھارتی کے سابق سی ای او
عصری عالمی منظر نامے میں، عوامی رائے کی تشکیل اور بین الاقوامی معاملات کی تفہیم میں میڈیا کا کردارکافی اہم ہے۔ بیانیوں کے اس پیچیدہ جال کے درمیان، عالمی سطح پر ہندوستان کی تصویر کشی پر مختلف عوامل کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ عالمی طاقت کی حرکیات کا پیچیدہ تعامل اس بات کی اچھی طرح وضاحت کرتا ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی تصویرکو کس طرح پیش کیا جاتا ہے، جس کو متعدد عوامل سے تقویت ملتی ہے اور اکثر مختلف عناصر کے ذریعہ ہندوستان مخالف پروپیگنڈے سے اس کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کا ممتازادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشنز (آئی آئی ایم سی)کے ایک ہم مرتبہ نظرثانی شدہ جریدے دی کمیونیکیٹر میں شائع ہونے والا ایک حالیہ، اہم تجزیہ بتاتا ہے کہ بھارت کے بارے میں منفی بیانیے غلط طورطریقوں کے ذریعے مین اسٹریم میڈیا میں اپنا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ عالمی میڈیا اپنے کوریج میں اکثر مثبت پیش رفت کو نظر انداز کرتے ہوئے نیزمنفی دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتے ہوئے یک طرفہ تصویر پیش کرتا ہے۔ اس بات سے ہندوستان کی پیشرفت اور کامیابیوں اور ایسے مثبت پہلوؤں کو، جو بار بار احتیاط سے تیار کیے گئے منفی بیانیے کے پردوں سے ڈھک دئے جاتے ہیں، کو ظاہر کرنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
عام طورپر دئے جانے والے غلط بیانات ‘‘جمہوریت کے کمزور ہونے’’کے دعووں اور ‘‘شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی’’ کے جھوٹے الزامات کے گرد گھومتے ہیں۔ تاہم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ہندوستان ایک متحرک کثیر الجماعتی نظام پر فخر کرتا ہے جس میں ایک انتہائی مسابقتی منظر نامے میں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل انتخابی عہدیداروں کی جانب سے کی جانے والی محتاط تیاریوں کے ساتھ، ہندوستان کا انتخابی نظام مضبوط ہے ، جس پر بہت سی ترقی یافتہ جمہوری حکومتیں رشک کرتی ہیں۔ نوجوان ووٹروں، خواتین، تیسری جنس اور ان کی برادری، معذور افراد (پی ڈبلیوڈیز ) اور خاص طور پر کمزور قبائلی گروپس (پی وی ٹی جیز) کے اندراج کے لیے کی گئی خصوصی کوششیں اس بات کی مثال پیش کرتی ہیں کہ کس طرح شمولیت اور رسائی کو ترجیح دی گئی ہے۔
ایک منتر کے طور پر شمولیت صرف تمام شہریوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بااختیار بنانے کے مرحلے سے آگے نکل گئی ہے تاکہ اب تمام شہریوں کو معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ چہار طرفہ ترقی میں حصہ دار بنایا جا سکے۔ یہ اس طرح سے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سے شہریوں کے معیار زندگی میں متعدد شعبوں میں ترقی کے ذریعے معیشت میں نمایاں پیش رفت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ جے اے ایم تثلیث جیسے ٹیکنالوجی سے چلنے والے اقدامات کے ذریعے مالیاتی شمولیت 80فیصد سے زیادہ بالغوں تک پہنچ گئی ہے۔ آمدنی میں عدم مساوات میں کمی دیکھی گئی ہے، جسے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور فائلنگ میں اضافہ سے تقویت حاصل ہوئی ہے، جس میں سال 2023-24 میں 82 ملین انکم ٹیکس ریٹرن فائل کیے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سے بالواسطہ ٹیکس کی وصولیوں میں تین گنا اضافہ کے ساتھ، گزشتہ دہائی کے دوران ہندوستان کے دانشمندانہ اقتصادی انتظام کےقابل ذکر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
ڈیجیٹل پبلک گڈز انفراسٹرکچر (ڈی پی جی آئی) کی تعمیر پر مبنی ہندوستان کے منفرد ترقیاتی ماڈل نے انڈیا اسٹیک، آدھار، یوپی آئی ، اور جی ایس ٹی این جیسے مقامی پلیٹ فارمز کو عالمی توجہ کا مرکزبنادیا ہے۔ یہ ڈی پی جی آئی بغیر کسی رکاوٹ کے لین دین اور حکمرانی کی سہولت فراہم کر رہے ہیں، شہریوں کے لیے ضروری خدمات کو زیادہ قابل رسائی اور موثر بنا رہے ہیں۔ ڈی پی جی آئیز اس بات کی عمدہ مثال ہیں کہ ہندوستان نے کس طرح بڑی تعدادمیں عوامی خدمات میں ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز تک رسائی کو جمہوری بنایا ہے۔ مزید برآں، اسٹینڈ اپ انڈیا، روزگار میلہ اور پردھان منتری مُدرا یوجنا (پی ایم ایم وائی) جیسے اقدامات روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور چھوٹے کاروباریوں کے لیے یکساں مواقع پیدا کرنے اور انہیں معاشی طورپربااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل شمولیت اور اقتصادی بااختیار بنانے کی یہ کامیابی کی کہانیاں انتخابات اور آزادانہ اظہار سے آگے بڑھ کر ہندوستانی جمہوریت کی صحت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کثیر جہتی رہی ہے، جس میں جدت اور لاجسٹکس سے لے کر ڈیجیٹل تیاری تک مختلف عالمی اشاریوں میں نمایاں بہتری دکھائی دیتی ہے۔ یہ ترقی پذیررجحان ملک کی ترقی کے عزم کی عکاسی کرتا ہے، جو ہر شہری تک پہنچتا ہے اور فائدہ پہنچاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کی متاثر کن اقتصادی ترقی کے باوجود، عالمی میڈیا کا ہندوستان کے بارے میں تنگ اور ناقص نقطہ نظر درختوں کے لیے جنگل کوکھودینے جیسا،یعنی اصل مسئلے کو چھوڑ کر بے کار کی باتوں میں الجھے رہنے والا معاملہ رہا ہے۔ یہ عمل ہندوستان کے انتخابی عمل میں غیر ملکی مداخلت سے جُڑا ہوا ہے، جس میں غیر ملکی اثر و رسوخ کی کارروائیوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں ، جن کی ابتداء چین سے ہوئی ہے،جس کی طرف سے اسی طرح دوسری جمہوری حکومتوں کے انتخابات میں مداخلت کی گئی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ، اس بات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ بدنیتی پر مبنی غیر ملکی عناصر کے ذریعہ ہندوستانی انتخابات کو خراب کرنے اور ہندوستانی جمہوریت کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لئے کس طرح جعلی آوازوں اورتصاویر بنانے کے عمل کو ہتھیار کے طورپراستعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ مروبط طریقہ کار ،جس کے تحت بہت سے عالمی میڈیا کے اداروں میں ہندوستانی جمہوریت پر غلط قسم کے تبصرے شائع کئے گئے ہیں، اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن مناسب اقدام کرے تاکہ حقائق کی جانچ کے عمل کوبااختیاربنایا جاسکے اور غلط کار پلیٹ فارمز اور میڈیا اداروں پر روک لگائی جاسکے۔
ہندوستان کی مضبوط جمہوریت اس کے روشن مستقبل کی بنیاد ہے، جس کی بنیاد ایک انتخابی نظام پر مبنی ہے جو اپنے شہریوں کی آواز کو طاقت دیتا ہے۔ یہ جمہوری جوش ٹھوس اقتصادی پیشرفت کے لیے ایک محرک ہے، جو روزگار کے مواقع میں اضافے اور بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل فریم ورک میں نظر آتا ہے۔ جامع ترقی کے لیے اپنے غیرمتزلزل عزم اور بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کے ساتھ، ہندوستان خود کو ایک مضبوط عالمی طاقت کے طور پر قائم کر رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے تئیں عالمی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے تحقیر آمیزعمل کے نتائج ضرور سامنے آئیں گے۔ آج یہ ہندوستانی جمہوری تجربہ ہے جو جامع ترقی اور پائیدار ترقی فراہم کرنے کی جمہوریت کی صلاحیت پر عالمی جنوب کے لئے امید کا مرکزبناہوا ہے۔عالمی میڈیا کے اداروں کو ایک مضبوط پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کرنا ایک ارب سے زیادہ ہندوستانیوں کی امنگوں کے ساتھ ساتھ عالمی جنوب میں کئی ارب افراد کی امیدوں کو مجروح کرنے کے مترادف ہے جو ہندوستان کو جمہوریت اور ترقی کے عملی نمونے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
-بھارت ایکسپریس