Bharat Express

US stops UN from recognizing a Palestinian state through membership: امریکا نے فلسطین کی اقوام متحدہ کی رکنیت روک دی، کیوں اقوام متحدہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تمام ممالک؟

اس وقت اقوام متحدہ میں 193 ممبران ہیں۔ جنوبی سوڈان اس کی رکنیت حاصل کرنے والا آخری ملک تھا۔ یہ 2011 کی بات ہے، جب فلسطین نے بھی اس کی سفارش کی تھی۔

اس وقت 193 ممالک اقوام متحدہ کے مکمل رکن ہیں۔ اس میں فلسطین شامل نہیں ہے۔ انہوں نے 2011 میں مستقل رکنیت کے لیے درخواست بھی دی تھی لیکن اس کے باوجود سب نے اتفاق نہیں کیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے لیے اقوام متحدہ کے دروازے آدھے کھلے ہیں؟ یہاں سمجھیں۔

ہمیں تین سوالوں کے جواب ملیں گے۔

– فلسطین کی موجودہ حیثیت کیا ہے اور وہ مکمل رکنیت کے لیے کیوں بے چین ہے؟

– اقوام متحدہ کی رکنیت کیسے حاصل کی جاسکتی ہے، اس کے کیا فوائد ہیں؟

– کن ممالک کے پاس اقوام متحدہ کی رکنیت نہیں ہے، اور کیوں؟

فلسطین اب کہاں کھڑا ہے؟

یہ اس وقت اقوام متحدہ کی ایک غیر رکن مبصر ریاست ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں حصہ لے سکتا ہے لیکن صرف سطحی طور پر۔ وہ اس کی کسی تجویز پر ووٹ نہیں دے سکتا۔ فلسطین کو یہ درجہ 2012 میں ملا تھا۔ ویٹیکن سٹی بھی اقوام متحدہ کے اس زمرے میں شامل ہے۔ انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بولنے کا حق بھی حاصل ہے تاکہ وہ کسی بھی تجویز یا مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور دوسرے ارکان پر اثر انداز ہو سکیں۔ اس کے بعد ہی ووٹنگ ہوتی ہے۔

مکمل رکنیت کیسے حاصل کی جائے۔

فلسطین نے 2011 میں مکمل رکنیت کے لیے درخواست بھی دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اس بار امریکہ نے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بات یہ ہے کہ مکمل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 15 رکنی جنرل باڈی میں سے 9 کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ پانچ مستقل ارکان کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی اس تجویز کو ویٹو کرتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتا ہے۔

آئیے یو این ایس سی کو مختصراً سمجھتے ہیں۔ اس کی رکنیت دو طرح کی ہے مستقل اور عارضی۔ صرف پانچ ممالک اس کے مستقل رکن ہیں امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین۔ اس کے علاوہ ایسے ملک کے 10 ارکان ہیں، جو ہر دو سال بعد تبدیل ہوتے ہیں۔

امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ کیوں دیا؟

اس پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ امریکہ کا ماننا ہے کہ فلسطین کو علیحدہ ملک کا درجہ دینے کا بہترین طریقہ اسرائیل اور اس کے درمیان براہ راست بات چیت ہے۔ امریکہ فلسطین کو الگ ملک کا درجہ دینے کے خلاف نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ  فریقین کے درمیان باہمی مذاکرات سے ہی ہونا چاہیے۔

حماس کو اٹوٹ انگ سمجھنے میں مسئلہ

تاہم فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بنانے میں ایک اور رکاوٹ ہے۔ اس وقت حماس غزہ کی پٹی میں کام کر رہی ہے جو کہ ایک عسکری تنظیم ہے۔ تجویز میں حماس کو بھی فلسطین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ ا

اس وقت کتنے رکن ممالک ہیں؟

اس وقت اقوام متحدہ میں 193 ممبران ہیں۔ جنوبی سوڈان اس کی رکنیت حاصل کرنے والا آخری ملک تھا۔ یہ 2011 کی بات ہے، جب فلسطین نے بھی اس کی سفارش کی تھی۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 4 کے مطابق کوئی بھی امن پسند ملک اس کا رکن بن سکتا ہے، اگر وہ عالمی امن اور بڑے مسائل پر کام کرنے کے لیے تیار ہو۔ لیکن اگر کوئی ملک جنگ یا نسل کشی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی رکنیت بھی چھین لی جا سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔

رکنیت کے فوائد کیا ہیں؟

اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس طرح مشکل کے وقت مدد حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ کئی طاقتور ممالک بھی اسمبلی میں ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کو اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کیا جاتا ہے تو اسے آسانی سے قرضے مل جاتے ہیں اور رکن ہونے کی وجہ سے اسے بہت سی دوسری مدد بھی ملتی ہے۔

اقوام متحدہ کی شاخیں ممالک میں جاتی ہیں اور وبائی امراض یا کسی بیماری کے وقت میں کام کرتی ہیں۔ وہ بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔

اس کی مستقل رکنیت کے ساتھ دوسرے رکن ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی مزید قریبی ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ ایک بین الاقوامی برادری کا حصہ ہیں۔

کئی بار ممالک کو جزوی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے سرحدی تنازعات بہت گہرے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے درجہ دیا تو جلد یا بدیر دوسروں سے بھی منظوری لی جائے گی۔

اس وقت صرف فلسطین اور ویٹیکن سٹی ہی اقوام متحدہ کے غیر رکن ہیں۔ فلسطین کی وجہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ حماس سے اس کا تعلق ایک مسئلہ ہے۔ ویٹیکن سٹی خود اقوام متحدہ میں شامل ہونا نہیں چاہتا۔ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 24 میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read