Bharat Express

UP Board of Madarsa Education Act 2004: یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو قرار دیا گیا غیر آئینی، ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ہزاروں طلبا کا مستقبل تاریک؟

یوپی مدرسہ بورڈ قانون کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے غیرآئینی ٹھہرا دیا ہے۔ اس کا مدارس کے طلبا کے مستقبل پراثر پڑسکتا ہے۔

Allahabad High Court on UP Board of Madarsa Education Act 2004: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے جمعہ کے روزیوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے متعلق ایک بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ اس میں یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کوغیرآئینی قراردے دیا گیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے اسے غیرآئینی قراردے دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں اس قانون کو الٹرا وائرس قراردیا ہے۔ جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی آئینی بینچ نے اترپردیش حکومت کوایک منصوبہ بنانے کا بھی حکم دیا تاکہ موجودہ وقت میں مدارس میں زیرتعلیم طلبا کوتعلیمی نظام میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ اترپردیش حکومت کی ریاست میں اسلامی تعلیمی اداروں کا سروے کرانے سے متعلق فیصلے کے بعد آیا ہے۔ اس میں بیرون ممالک سے مدارس کی فنڈنگ کی جانچ کے لئے اکتوبر 2023 میں ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل بھی کی گئی تھی۔ عدالت کا فیصلہ انشومان راٹھورکی طرف سے داخل کی گئی عرضی پرآیا ہے۔ اس میں یوپی مدرسہ بورڈ کے اختیارات کو چیلنج دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اوردیگرمتعلقہ محکموں کے ذریعہ محکمہ اقلیتی بہبود کے انتظامات پراعتراضات کئے گئے ہیں۔ دسمبر، 2023 میں ڈویژن بینچ نے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں ممکنہ منمانی اورشفافیت کی ضرورت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہارکیا۔ اس اہم موضوع پرزوردیا گیا کہ اس طرح کے فیصلے مساوی مواقع اورسیکولرگورننس کے اصولوں کے مطابق ہیں۔

واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ ڈبل بنچ کے فیصلے کے بعد اب تمام سبسڈی والے مدارس کو ملنے والی گرانٹ یعنی حکومت سے ملنے والی امداد بند ہو جائے گی اورسبسڈی والے مدارس ختم ہوجائیں گے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے مدارس کے ذریعے مذہبی تعلیم دی جا رہی تھی۔ عدالت نے اسے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے منافی تسلیم کیا ہے۔

یوپی بورڈ مدرسہ ایکٹ 2004 کیا ہے؟
یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 ایک قانون تھا، جسے حکومت اترپردیش نے ریاست میں مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت مدارس کو بورڈ سے شناخت حاصل کرنے کے لئے بہترمعیارات پرپورا اتررہے تھے۔ بورڈ نے مدارس کونصاب، تدریسی مواد اوراساتذہ کی تربیت کے لئے رہنما اصول بھی فراہم کئے ہیں، جس پر سرکاری مالی امداد پرچلنے والے یہ مدارس کھرا اتر رہے تھے۔ عدالت کے فیصلے پریوپی مدرسہ بورڈ کی رجسٹرارپرینکا اوستھی نے کہا کہ ابھی مکمل حکم کا انتظارہے۔ حکم کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی اوراس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

آسام کی طرح ختم ہوجائیں گے یوپی کے مدارس؟

واضح رہے کہ یو پی میں 560 ریاستی امداد یافتہ مدراس ہیں اور121 منی آئی ٹی آئی چل رہے ہیں۔ امداد یافتہ دینی مدارس میں اس وقت 9514 اساتذہ اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ امداد یافتہ دینی مدارس کےعلاوہ یوپی مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ دینی مدارس کی کل تعداد 19213 ہے۔ تسلیم شدہ دینی مدارس ریاست کے دوردرازکے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جہاں غریب بچوں کومفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے قیام کے وقت سے ہی عربی فارسی بورڈ محکمہ تعلیم کے ماتحت کام کرتا رہا ہے، لیکن 1994 میں عربی فارسی بورڈ کو محکمہ تعلیم سے الگ کر کے اس کومحکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے ماتحت کردیا گیا تھا۔ اس طرح ایک صدی پرانے عربی فارسی بورڈ کی اہمیت خود بہ خود ختم ہوگئی۔ 14 دسمبر2007 کو ریاستی حکومت نے عربی فارسی بورڈ کا نام بدل کریو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ کردیا اوراس کا صدرمقام الہ آباد سے لکھنؤ منتقل کردیا گیا۔ سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے مدارس کو یوپی مدرسہ بورڈ سے منظوری حاصل کرنی ہوتی تھی۔ دراصل یہ خدشہ پہلے ہی تھا کہ کیا یوپی میں حکومت سے امداد یافتہ دینی مدارس ختم کردئیے جائیں گے؟ یہ سوال اہل مدارس اورمیڈیا سے وابستہ افراد کے درمیان گردش کررہے تھے۔ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا کیونکہ آسام میں امداد یافتہ دینی مدارس کو جس طرح سے ختم کیا گیا، اس کے بعد یوپی کے دینی مدارس کے وجود کولے کرلوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ جواب آشکارہوچکا ہے۔ دینی مدارس کے ذمہ داران کا خیال تھا کہ اگرآسام کا فارمولہ یوپی میں بھی آزمایا گیا تو یوپی مدرسہ بورڈ کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ بس فرق یہ ہے کہ آسام میں وہاں کی حکومت نے ایسا کیا تھا اوریہاں عدالت کا سہارا لے کربورڈ کو ختم کیا جا رہا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔