Bharat Express

بھارت جوڑو یاترا میں پہنچی رادھیکا ویمولا: راہل گاندھی نے گلے لگایا

راہل گاندھی نے رادھیکا ویمولا کو لگایا گلے

نئی دہلی، 1 نومبر (بھارت ایکسپریس): کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا ان دنوں تلنگانہ میں ہے۔ راہل گاندھی یاترا کے دوران شامل ایک بزرگ خاتون کو گلے لگاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ حیدرآباد یونیورسٹی کے متوفی دلت طالب علم روہت ویمولا کی ماں رادھیکا ویمولا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران شامل رادھیکا ویمولا بھی راہل گاندھی کے ساتھ یاترا میں تھیں۔ اس دوران رادھیکا نے لوگوں سے کانگریس کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے  اور بیٹے کی لڑائی لڑنے کی بات کہی ہے۔

واضح رہے کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے ایک دلت طالب علم روہت ویمولا نے 2016 میں مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ جس کے بعد ذات پات کا معاملہ پورے ملک میں گرم ہوا تھا۔ روہت کی ماں رادھیکا ویمولا بھی بھارت جوڑو یاترا کی صبح کی یاترا کے دوران راہل گاندھی کے ساتھ تھوڑی دور چلیں تھیں۔

روہت ویمولا کے بارے میں

حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم روہت چکرورتی ویمولا کی خودکشی کو چھ  سال ہوچکے ہیں۔

ایک 26 سالہ دلت طالب علم روہت ویمولا نے 17 جنوری 2016 کو یونیورسٹی کے ہاسٹل کے ایک کمرے میں پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی۔

ان کی خودکشی کا معاملہ کافی دنوں تک سرخیوں میں رہا اور آج بھی اس کا چرچا ہے۔ وہ کیمپس میں دلت طلباء کے حقوق اور انصاف کے لیے بھی لڑتے رہے تھے

روہت یونیورسٹی میں امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے رکن تھے۔خود کشی سے پہلے جو خط لکھا اسے پڑھکر آپ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائنگے کہ یہ واقعی ایک خودکشی ہے یا حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے والا مجبور ہو کر موت کو گلےلگاتا ہے ۔

صبح بخیر،

جب آپ یہ خط پڑھ رہے ہوں گے تو میں وہاں نہیں ہوں گا۔ مجھ سے ناراض مت ہونا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے میرا خیال رکھا، آپ نے مجھ سے پیار کیا اور آپ نے میرا بہت خیال رکھا۔

مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میرا  ہمیشہ اپنے ساتھ ایک مسئلہ رہا ہے۔ میں اپنی روح اور اپنے جسم کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ میں شیطان بن گیا ہوں۔

میں ہمیشہ سے قلم کار بننا چاہتا تھا۔ سائنس مصنف، کارل سگان کی طرح۔  لیکن آخر میں میں صرف یہ خط لکھنے کے قابل ہوں۔

میں سائنس سے محبت کرتا تھا، مجھے ستاروں سے پیار تھا، مجھے فطرت سے پیار تھا…اور  میں لوگوں سے پیار کرتا تھا لیکن  نہ جانے کب لوگوں نے فطرت کو  طاق پہ رکھ دیا ۔

ہمارے جذبات دوسرے درجے کے ہو گئے ہیں۔ ہماری محبت جھوٹی ہے۔ ہمارے عقائد جھوٹے ہیں۔ ہماری اصلیت صرف مصنوعی فن کے ذریعے ہی جائز ہے۔ یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ ہم پیار کریں اور غمگین نہ ہوں۔

ایک آدمی کی قدر اس کی فوری شناخت تک رہ گئی ہے ۔اس کی لمٹ رہ گئ ہے صرف  ایک ووٹ تک۔

انسان صرف ایک عدد بن  کر رہ گیا ہے۔یعنی  محض ایک چیز۔ انسان کو کبھی بھی اس کے دماغ سے پرکھا نہیں جاتا۔ ایک چیز جو اسٹارڈسٹ سے بنی تھی۔ ہر میدان میں، مطالعہ میں، گلیوں میں، سیاست میں، مرنے اور جینے میں۔

میں نے پہلی بار ایسا خط لکھا ہے۔ پہلی بار آخری خط لکھ رہا ہوں۔ اگر یہ کوئی معنی نہیں رکھتا تو مجھے افسوس ہے۔

شاید میں اب تک دنیا کو سمجھنے میں غلط ہوں۔ محبت، درد، زندگی اور موت کو سمجھنے میں ایسی کوئی جلدی نہیں تھی۔ لیکن میں ہمیشہ جلدی میں تھا۔ زندگی شروع کرنے کے لیے بے چین تھا۔

یہ سارا عرصہ زندگی میرے جیسے لوگوں کے لیے لعنت بنی رہی ہے۔ میری پیدائش ایک خوفناک حادثہ تھا۔ میں اپنے بچپن کی تنہائی پر کبھی قابو نہیں پا سکا۔ مجھے بچپن میں کوئی پیار نہیں ملا۔

مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں اداس نہیں ہوں۔ میں صرف آزاد ہوں۔ میں اپنے بارے میں بھی پریشان نہیں ہوں۔ یہ افسوسناک ہے اور اسی لیے میں یہ کر رہا ہوں۔

لوگ مجھے بزدل کہیں گے۔ خود غرض، احمق بھی۔ جب میں چلا جاؤں گا تو  مجھے پرواہ نہیں کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے۔

میں مرنے کے بعد بھوت کی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر میں کسی چیز پر یقین رکھتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ میں ستاروں کا سفر کر سکوں گا اور جان سکوں گا کہ دوسری دنیا کیسی ہے۔

اگر آپ جو میرا خط پڑھ رہے ہیں کچھ کر سکتے ہیں، مجھے ابھی سات ماہ کا وظیفہ یعنی ایک لاکھ 75 ہزار روپے نہیں ملے۔  براہ کرم یقینی بنائیں کہ میرے خاندان کو یہ رقم مل جائے۔ مجھے رام جی کو 40 ہزار روپے دینے تھے۔ انہوں نے کبھی پیسے واپس نہیں مانگے۔ لیکن مہربانی کرکےوظیفہ کے پیسے سے رام جی کو پیسے دیں۔

میں چاہوں گا کہ میرا جنازہ پرامن اور پرسکون ہو۔ لوگ ایسا برتاؤ کریں  جیسے میں آیا اور چلا گیا۔ میرے لیے آنسو مت بہانا ۔ تم جانتے ہو کہ میں جینے سے زیادہ مرنے میں خوش ہوں۔

‘سائے سے ستاروں تک’

اما انا، میں آپ کے کمرے میں یہ کام کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

امبیڈکر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن فیملی، آپ سب کو مایوس کرنے کے لیے معذرت۔ آپ سب مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مستقبل کے لیے سبکو  نیک خواہش ۔

آخری بار

جئے بھیم

میں رسمی باتیں لکھنا بھول گیا۔ کوئی بھی میرے قتل کا ذمہ دار نہیں ہے۔ کسی نے مجھے ایسا کرنے پر نہیں اکسایا، نہ اس کے عمل سے اور نہ ہی اس کے الفاظ سے۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ میرے جانے کے بعد میرے دوستوں اور دشمنوں کو تنگ نہ کیا جائے ۔

Also Read