Bharat Express

Organised and coordinated response to Biporjoy : بپرجوئے سے نمٹنے کیلئے کیے گئے منظم اور تال میل پر مبنی اقدامات ڈگر سے ہٹ کر حاصل کی گئی ایک حصولیابی

فطرت کی اس قہر سامانی کے بالمقابل تباہی کا سامنا کرنے والے ادارے کی سب سے بڑی واحد کامیابی یہ تھی کہ گجرات میں اس سمندری طوفان کے نتیجے میں ایک بھی زندگی تلف نہیں ہوئی۔ یہ اس شدت کے طوفان اور تباہکاری کا سامنا کرنے کے معاملے میں ملک کی فزوں تر ہوتی صلاحیت کا ایک بین ثبوت ہے۔

تحریر:اتل کروار، آئی پی ایس ، ڈی جی ، این ڈی آر ایف

Organised and coordinated response to Biporjoy : شدید ترین سمندری  طوفان بپرجوئے جس نے 15 جون کو 140 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کےساتھ شام کے وقت کچھ کے ساحلی علاقے کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا اور پورے گجرات اور راجستھان میں  تباہی برپا کردی۔ فطرت کی اس قہر سامانی کے بالمقابل تباہی کا سامنا کرنے والے ادارے کی سب سے بڑی واحد کامیابی یہ تھی کہ گجرات میں اس سمندری طوفان کے نتیجے میں ایک بھی زندگی تلف نہیں ہوئی۔ یہ اس شدت کے طوفان اور تباہکاری کا سامنا کرنے کے معاملے میں ملک کی فزوں تر ہوتی صلاحیت کا ایک بین ثبوت ہے کیونکہ 1999 میں اڈیشا میں آئے سمندری طوفان کے نتیجے میں اندوہناک طور پر 9887 زندگیاں تلف ہوئی تھیں۔ اس کے  بعد سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے معاملے میں خاصی بہتری رونما ہوئی ہے اور 2020 میں آئے سمندری طوفان امفان کے نتیجے میں انسانی زندگیوں کے اس اتلاف کو کم کرکے 128 تک لایا گیا ہے۔ بپرجوئے سے نمٹنے کے لیے منظم اور تال میل پر مبنی ردعمل ایک ایسی ڈگر سے ہٹ کر حاصل کی گئی حصولیابی ہے جس کا تجزیہ کیا جانا چاہئے اور دیگر اداروں کو بھی اس کی پیروی کرنا چاہئے۔ بھارت نے سلسلہ وار طریقے سے لگاتار تین قدرتی آفات یعنی 1999 میں اڈیشا کے زبردست سمندری طوفان، 2001 میں کچھ کے زلزلے اور 2004 میں سونامی کا سامنا کیا۔ قومی تباہکاری انتظام اتھارٹی کا اپنے مقصد کے تئیں کلی طور پر وقف ڈھانچہ یعنی قومی تباہکاری ردعمل  اور قومی ادارہ برائے تباہکاری انتظام وجود میں آئے۔

اس امر کا ادراک کرتے ہوئے کہ تباہکاری کی شدت کم کرنےمیں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، خطرات اور خدشات کو کم کرنے اور تباہکاری کی صورتحال میں جو بھی کاروائی ہوتی ہے وہ کئی گنا نتائج لے کر آتی ہے۔ اس کا افزوں احساس کرتے ہوئے اس طرح کے بڑے پیمانے کی تباہکاریوں سے نمٹنے کی ہماری صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر افزوں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ چونکہ بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں قدرتی آفات کا سامنا کرنے والا تیسرا ملک ہے ، اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھائے گئے اقدامات ہر لحاظ سے معقول و مناسب ہیں۔ مرکزی حکومت نے بطور خاص قومی ڈیزاسٹر رسپانس فورس کی صلاحیت کو ازسر نو منظم بنایا ہے جسے آٹھ بٹالینوں کے ساتھ 2006 میں قائم کیا گیا تھا اور اب یہ نمو پذیر ہوکر 16 بٹالینوں کے بقدر تک پہنچ گئی ہے۔

وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے بھارت کو قدرتی تباہکاری صورتحال سے نمٹنے کے معاملے میں لچکدار بنانے پر بہت زور دیا ہے، خصوصاً گذشتہ چند برسوں کے دوران ذاتی طور پر قدرتی آفات سے متعلق مستعدی اور عمل میں لائے جانے والے اقدامات کی نگرانی کی ہے۔ وزیر اعظم نے دہلی میں 2016 میں منعقدہ ایشیائی وزارتی کانفرنس میں دس نکاتی پروگرام کا اعلان کیا تھا جس میں قدرتی آفات اور اس سے وابستہ خطرات کو کم سے کم کرنے کے لیے نکات بھی شامل تھے جس نے اس سلسلے میں ایک نظریہ پیش کیا ہے اور قدرتی آفات کی صورت میں انہیں جھیل سکنے والا بنیادی ڈھانچہ سے متعلق ایک مرکز قائم کیا گیا ہے۔ 40 سے زائد ممالک نے پہلے ہی اس پہل قدمی میں اشتراک کر لیا ہے۔

یہی ایک وجہ ہے کہ تیاریوں میں کسی طرح کا سقم نہیں رکھا گیا، جنہوں نے بپر جوئے کا سامنا کرنے میں ہمیں کامیاب بنایا۔  بپرجوئے آہستہ آہستہ بحر عرب میں اپنا حجم بڑھاتا گیا اور اسی وجہ سے ہمیں تیاری کا وقت ملا۔ ملک میں موجود اعلیٰ ترین کارکنان کی تو جہ اور ترغیب کے ساتھ، این ڈی آر ایف دنیا میں ایک منفرد مثال قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس نے تن تنہا سال بھر قدرتی آفات سے نمٹنے کی ایک قوت کے طور پر کام کیا۔ اب اس ادارے میں تمام طرح کے انسانی اور قدرتی تباہکاری کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت اور اہلیت دستیاب ہے۔ اس کی مثال اس سال 6 فروری کو ترکیہ میں آئے اندوہناک زلزلے کی صورت میں ہماری جانب سے پیش کی گئی مدد کی شکل میں سامنے آئی جب بھارت سب سے پہلے حرکت کرنے والے ایک ملک کے طور پر سامنے آیا اور اس نے 152 این ڈی آر ایف بچاؤ کاروں کی ایک بھارتی ٹکڑی کے ساتھ 99 نیم طبی ہاسپٹل کا عملہ مدد کرنے والا سب سے بڑا عملہ ثابت ہوا۔ بھارتی فضائیہ جس کے ماہر پائلٹوں اور طیاروں نے ہماری  گاڑیاں تک ترکیہ پہنچائیں جس کے نتیجے میں این ڈی آر ایف بچاؤکار حرکت میں آسکے۔ ہمارے وہاں پہنچتے ہی مقامی طور پر کم سے کم مدد کے باوجود کام شروع ہوگیا۔

این ڈی آر ایف کی سرگرم ٹیموں کی تعیناتی کے علاوہ نیز دیگر مرکزی ایجنسیوں اور دفاعی دستوں کی مستعدی کے ساتھ بپرجوئے سے نمٹنے میں کامیابی کو یقینی بنانے میں سب سے اہم بات یہ  تھی کہ ریاست گجرات نے اس سلسلے میں عمیق منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ شاید واحد اہم وجہ تھی اور اس میں روایت کا بھی دخل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اختراعی اقدامات بھی شامل تھے۔ متاثر ہونے والی خستہ حال آبادی کو ایک ایک کرکے شناخت کر لیا گیا تھا اور 143053 افراد کا محفوظ انخلاء عمل میں لایا گیا تھا۔ پیڑوں کو جڑوں سے اکھڑنے سے بچایا گیا اور 4317 بڑے بڑے ہورڈنگ ہٹا دیے گئے تاکہ تیز رفتار ہواؤں سے پھٹ کر کے یہ مہلک ہتھیار نہ بن جائیں۔ 1152 حاملہ خواتین جن کی وضع حمل کی مدت اس سمندری طوفان کےدوران پہلے سے ہی متوقع تھی انہیں احتیاطی طور پر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اور اسی سمندری طوفان کے دوران ایک محفوظ ماحول میں 707 بچے پیدا ہوئے۔

ایک ازحد سخت انفورسمنٹ میکنزم نے عوام الناس کو ان کے گھروں کے اندر محصور رکھا اور وہ خطرات پر مبنی برتاؤ سے دور رہے۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ پیشگی طو رپر 18 این ڈی آر ایف اور 12 ایس ڈی آر ایف ٹیموں کو تعینات کیا گیا تھا جنہوں نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے کے علاوہ عوام الناس کو انخلاء کے بارے میں مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر چوبیس گھنٹے خدمات انجام دیں۔ ٹیموں نے اس سمندری طوفان کے بعد بھی کام جاری رکھا۔ مقصد یہ تھا کہ صورتحال کو ہر ممکنہ جلدی کے ساتھ معمول کے مطابق بحال کیا جا سکے۔

اس طرح کے منظم اور تال میل پر مبنی ردعمل کی نمایاں کامیابی جو ایک بڑے تباہکاری طوفان کے بالمقابل حاصل ہوئی، وہ یہ تھی کہ اس طوفان کے نتیجے میں کوئی ہلاک نہیں ہوا اور اس نے ایک ترغیب جاتی معیار فراہم کیا ہے۔ کلیدی عناصر میں معاشرتی بیداری جیسا کہ وزیر اعظم نے اس کی ستائش کی ہے، ہر ایک پیشگی نازک صورتحال کے لیے گہری منصوبہ بندی اور پیش بندی کےطور پر کی گئی کاروائی  جیسے امور شامل ہیں۔ اس کامیابی کو آئندہ بھی نمونہ بنانے کے لیے ریاستوں کو ضروری ہے کہ وہ پورے سال اپنے مقصد کے لیے وقف مکمل سازو سامان کے ساتھ اور تربیت یافتہ ایس ڈی آر ایف معقول تعداد میں اپنے یہاں تیار رکھیں۔

اس طرح کی تباہکاریاں ساحلی علاقوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کے نتیجے میں اب زیادہ عام ہوتی جا رہی ہیں۔ 2000 سے لے کر 2019 کی مدت میں 1980-1999 کی مدت کی 4212 تباہکاریوں کے مقابلے میں 7348 تباہکاریاں رونما ہوئیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنے کے لیے این ڈی آر ایف ایس ڈی آر ایف کی صلاحیت سازی کے لیے لگاتار کام کرتی رہی ہے اور اپنے اسکول سلامتی پروگرام اور معاشرتی بیداری پروگراموں کے ذریعہ بیداری پھیلاتی رہی ہے۔ این ڈی آر ایف لگاتاراس بات کے لیے کوشاں  رہتی ہے کہ اہلیت کو بہتر بنایا جائے اور یہ ملک اور بنی نوع انسانیت کو بڑے پیمانے پر اپنی خدمات پیش کرنے میں فخر کا احساس کرتی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔