Bharat Express

Resolution for social changes:معاشرتی تبدیلی کا عزم

تین بھارتی کواڈ وظیفہ یافتگان اپنی اسٹیم تعلیم کو معاشرےمیں مثبت بدلاؤ لانے کے لیےاستعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

معاشرتی تبدیلی کا عزم

تحریر – پارومیتا پین, رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں عالمی ذرائع ابلاغ مطالعات کی معاون پروفیسر ہیں۔

کیا صاف توانائی کو مزید سستا کیا جا سکتا ہے اور کیا اسے سب کی دست رس میں لایا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی نو آموز مصنوعی ذہانت کو بہتر اور مزید بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے؟ کیا طبّی تشخیص کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے؟ تیج وینکٹیش پیرومل ، دھرو اگروال اور شاریکا زتشی انہی سوالات کے جواب تلاش کر رہے ہیں ۔ اصل میں یہ تینوں سو کواڈ وظیفہ یافتگان پر مبنی اس گروہ کا حصہ ہیں جس کا اعلان دسمبر ۲۰۲۲ء میں کیا گیا تھا۔
کواڈ فیلو شپ
کواڈ فیلوشپ دراصل چار حکومتوں… آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ کی مشترکہ پہل ہے جس کا مقصد ان ممالک کی نئی نسل کے سائنسدانوں اور تکنیکی ماہرین کے درمیان سائنسی تحقیق کے میدان میں ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ہر وظیفہ یافتہ شخص کو ۵۰ ہزار امریکی ڈالر ملیں گے جن سے وہ اپنی تعلیمی فیس ادا کرسکے گا، تحقیقی کام انجام دے سکے گا ، کتابیں خرید سکےگا اور دیگر تعلیمی اخراجات کو پورا کرسکے گا۔
پیرومل، اگروال اور زتشی امریکہ میں اپنی اعلیٰ تعلیم میں مصروف ہیں۔ لیکن اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے یہ تینوں کواڈ کوہورٹ کی نیٹ ورکنگ سرگرمیوں اور مجازی پروگراموں میں بھی شرکت کریں گے۔ زتشی اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں’’اس وظیفہ کی بدولت میں نہ صرف اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرسکتی ہوں بلکہ کواڈ ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں اور تبدیلی کا سبب بننے والوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکتی ہوں جس سے مجھے ایک بہتر سائنسداں، اختراع پرداز، مستقبل کی معلّمہ اور کاروباری پیشہ ور بننے میں مدد ملے گی۔‘‘
اگروال بھی اس وظیفے کو اپنے تحقیقی کاموں کے لیے استعمال کریں گے ۔ وہ بتاتے ہیں ’’ اپنے فیلڈ ورک کے اخراجات پوراکرنے کے علاوہ اس وظیفے سے مجھے نیٹ ورکنگ کے مواقع بھی میسر ہوں گے جس سے میں اپنی تحقیقی کاوشوں کومختلف ممالک میں پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ طبقات کی بہبود کے لیے استعمال کر سکوں گا جو کہ اس وظیفہ کے بغیر ناممکن ہے۔نتیجتاً میں معاشرتی بہبود پر مرکوز ایک معیاری اسٹیم تحقیق انجام دے سکوں گا۔‘‘

مصنوعی ذہانت کی وضاحت
اگروال کارنیل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سال اوّل کے طالب علم ہیں۔ ان کا پس منظر کمپیوٹر سائنس اور انسان اور کمپیوٹرکے درمیان باہمی عمل کا ہے۔ اسی کو بروئے کار لاتے ہوئے اگروال پسماندہ اور غیر مراعات یافتہ طبقات کی فلاح کے لیے تکنیک تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’ فی الحال میری تمام تر توجہ کا مرکز پسماندہ افراد کے لیے صحت خدمات سے متعلق منصفانہ اور ذمہ دار اے آئی تیار کرنا ہے۔ میری تحقیقات کا محور ایسی اے آئی مصنوعات تیار کرنا ہے جن کا ایک محدود وسائل والا شخص بآسانی ادراک کرلے تاکہ وہ جان سکے کہ کب مصنوعی ذہانت پر بھروسہ کرنا ہے اور کب نہیں۔‘‘
کارنیل یونیورسٹی میں اگروال جس پروجیکٹ پر کام کرر ہے ہیں اس کا ہدف یہ ادراک کرنا ہے کہ بھارت میں صحت خدمات سے منسلک افراد اے آئی پر منحصر تشخیصی ایپ کے نتائج کاکس حد تک ادراک کرپا رہے ہیں۔پروجیکٹ ٹیم نے پایا کہ یہ افراد اے آئی کے نتائج پر اتنا ہی بھروسہ کررہے ہیں جتنا کہ وہ تھرمومیٹر اور ایکس رے پر کرتے ہیں۔ اگروال بتاتے ہیں ’’ چونکہ ہمیں تکنیکی شد بد ہے اس لیے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اے آئی میں بھی غلطی کے امکانات ہیں مگر جن کو اے آئی کی سطحی سمجھ ہے ان کو یہ بات ہضم نہیں ہوپاتی کہ مشین بھی غلط ہو سکتی ہے۔ ہم اس مطالعہ سے حاصل شدہ معلومات سے اے آئی کی ایسی اَیپلی کیشن تیار کرنے میں مصروف ہیں جن کا ادراک ایک نو آموز شخص بھی بآسانی کرسکتا ہے۔‘‘
اگروال کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور وہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں امریکہ آئے۔ پی ایچ ڈی تحقیق کےلیے اپنے پانچ برس کے قیام کے دوران اگروال پوری دنیا میں پسماندہ طبقات کے مسائل کا ادراک کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کا ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے حل تلاش کیا جا سکے۔وہ کہتے ہیں’’اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد بھی میں ایسی ٹیکنالوجیوں پر تحقیق جاری رکھوں گا جن سے معاشرتی اور پالیسی سے متعلق تبدیلیاں واقع ہوں اور اسی لیے میرے طویل مدتی اہداف کے پیش نظر کواڈ فیلو شپ میرے لیے کافی اہمیت کی حامل ہے۔‘‘

خورد ہ حل کی تلاش
زتشی برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا (یوسی) میں حیاتیاتی انجینئرنگ اور ڈیزائن اختراع پردازی کی سال چہارم کی طالبہ ہیں۔
وہ یو سی برکلے کے شعبہ میکانکل انجینئرنگ میں واقع سوہن لیب میں بحیثیت معان تحقیق کار بھی کام کام کررہی ہیں۔ دیگر تحقیقی کاموں کے علاوہ ان کی تحقیق کا مطمح نظرسرطان کی شروعاتی دور میں تشخیص اور آخری دور میں معاون علاج ہے جس سے سرطان دوبارہ نہ ہونے پائے۔
زتشی گو کہ بینگالورو میں پیدا ہوئیں مگر انہوں نے تعلیم ممبئی میں حاصل کی۔ اپنے تعلیمی سفر کے آغاز سے ہی زتشی کو بایو انسپائرڈ ڈیزائن(علم الحیات سے تحریک پاکر تیار شدہ ڈیزائن) اور اس کے مختلف استعمالات میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ اپنے تمام تعلیمی سفر کے دوران میری دلچسپی سائنس، ٹیکنالوجی ،معاشیات اور عوامی پالیسی رہی ہے۔ میں اس ملک میں پلی بڑھی ہوں جہاں ہر ایک ہزار مریض پر محض ایک طبیب دستیاب ہے۔ لہٰذا میں نے بھارت کی صحت خدمات سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں معنی خیز تبدیلی کا سبب بننے کا عزم مصمم کیا۔ غالباً اسی وجہ سے مجھے طبّی سائنس میں بایوانسپائرڈ ڈیزائن میں دلچسپی پیدا ہوئی۔‘‘
ایک اہم مسئلہ جس کی جانب زتشی نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے وہ کم آمدنی والے افراد کے واسطے سستی صحت خدمات فراہم کرناہے۔ وہ بیان کرتی ہیں’’ میری توجہ خاص طور پر اختراعی حل تلاش کرنے پر مرکوز ہے۔ اس کا مقصد صحت خدمات میں استعمال ہونے والے طبّی آلوں کی کارگردگی کو بہتر بنانا ہے تاکہ طبیبوں اور صحت دیکھ بھال کے نظاموں پر سے بوجھ میں تخفیف کی جا سکے۔‘‘
دراصل زتشی اس امر پر تحقیق کرر ہی ہیں کہ آیا خورد سیّال آلہ جات کو مرض کی تشخیص میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔خورد سیّال آلہ کا دوسرا نام ’لیب آن چِپ‘ بھی ہے۔ تجربہ گاہ میں بعض مخصوص جانچوں کو کرنے کے لیے یہ خورد چِپ پر بہت ہی قلیل مقدارمیں سیّال مادّہ استعمال کیا جاتا ہے۔


زتشی کو یقین ہے کہ صحت خدمات ،بالخصوص سرطان کی تشخیص کو بہترین اختراع پردازی سے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔زتشی خورد سیّال آلہ جات کی افادیت کے متعلق بتاتی ہوئی کہتی ہیں ’’ اس سے ہم تشخیص میں جلدی کرسکتے ہیں جس سے مریض کی جان بچانے کےلیے ہمیں زیادہ وقت مل سکے ورنہ اس کے فقدان میں مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔‘‘
زتشی کا ارادہ تحقیقی میدان، درس و تدریس اور کاروبار تینوں ہی شعبوں میں قسمت آزمائی کرنے کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا ان کا تجربہ نہایت سود مند ہے۔وہ کہتی ہیں ’’ مجھے ایسا شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ جس قسم تعلیمی ماحول مجھے امریکہ میں میسر آیا ہے جہاں ہر نکتہ پر کھل کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اس سے مجھے کافی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ میں اس موقع کے لیےبے انتہا شکر گزار ہوں جس کی بدولت مجھے ٹیکنالوجی کے طور پر ترقی یافتہ اور اختراع پردازی کو فروغ دینے والے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا جس سے مختلف النوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے بہترین افراد شامل ہیں۔‘‘

سب کےلیے صاف توانائی
پیرومل میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وِسکونسِن میں مفید کیمیااور ایندھن کے پائدارپیداوار پر پی ایچ کر رہی ہیں۔ ان کی تحقیق کے نتیجہ میں صاف توانائی سستی ہوگی اور سب کی دست رس میں ہوگی۔ وہ بتاتی ہیں’’ میں اس کوحقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے کچھ عمل انگیز عمل اور مادّہ تیار کررہی ہوں۔ بالخصوص میری تحقیقی کاوش کا مرکز قابل تجدید بجلی سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور نامیاتی مرکبات تیار کرنا ہے جو ادویہ سازی میں مفید ثابت ہوگی۔‘‘
پیرومل کی نشو و نما چنئی میں ہوئی جہاں ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ صاف توانائی نہ ہونے کے سبب ماحولیاتی تبدیلی اور غربت جیسے مسائل میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔وہ کہتی ہیں ’’ اس میدان سائنسی تحقیق ایک عمدہ حل پیش کر سکتی ہے، لہذا میں صاف توانائی کو سستا کرنے اور اس کی ہر کس و ناکس تک رسائی پر تحقیق کرنے کے لئے کافی پرجوش تھی۔‘‘ پیرومل تدریسی میدان میں اپنی خدمات انجام دینا چاہتی ہیں اور ساتھ ہی عوامی خدمات سے بھی منسلک ہونا چاہتی ہیں۔وہ اپنے پی ایچ ڈی کے سفر کے دوران حاصل ہونے والے مواقعوں اور پالیسی سازوں اور صنعتی شرکاسے تبادلہ خیال اور وسیع پیمانے پر بین موضوعاتی تعاون کو کافی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ وہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ کواڈ فیلو شپ کے ذریعہ مجھے مختلف النوع افراد سے تبادلہ خیال کا جوموقع میسرآنے والا ہے ،میں اس کے بارے میں کافی پر جوش ہوں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو حکومت کی اہم پالیسیوں پر کام کر رہے ہیں اور اہم صنعتی اداروں سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں ۔‘‘

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی