![](https://urdu.bharatexpress.com/wp-content/uploads/2025/02/rr-ezgif.com-jpg-to-webp-converter.webp)
ایک اہم فیصلے میں مدراس ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ صحافیوں کو ذاتی ڈیٹا جاری کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مکمل طور پر آزادی اظہار کے خلاف ہے۔ جسٹس جی کے الانتھیرایان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ سخت تبصر ہ کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر کوئی صحافیوں پر اس طرح دباؤ ڈال رہا ہے تو یہ ہراساں کرنا ہے۔
کیا یہ سارا معاملہ ہے؟
آپ کو بتادیں کہ ایک ایس آئی ٹی جنسی ہراسانی کے ایک معاملے کی جانچ کر رہی تھی، یہ معاملہ انا یونیورسٹی سے متعلق تھا۔ اس تفتیش کے دوران ہی ایجنسی نے کئی صحافیوں کو طلب کیا تھا اور ان سے 50 سے زیادہ سوالات کیے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ بیرون ملک کہاں گئے اور ان کے پاس کتنی رقم ہے۔ اس کے علاوہ ان سے کئی ذاتی سوالات بھی پوچھے گئے۔ اب جب عدالت کو اس کا علم ہوا تو ان کی جانب سے صحافیوں کے حق میں تبصرہ کیا گیا۔
جسٹس جی کے الانتھیرایان نے کہا کہ اگر صحافیوں سے ذاتی ڈیٹا طلب کیا جا رہا ہے، ان سے ذاتی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو یہ محض پریس کو ہراساں کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آزادی صحافت اور رازداری کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جسٹس جی کے الانتھیرایان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پوچھے گئے سوالات زیادہ نجی نوعیت کے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ رازداری کے حق کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایس آئی ٹی نے صحافیوں سے ذاتی سوالات پوچھ کر اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایف آئی آر لیک ہوئی، اس کے بعد ہی صحافیوں سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن یہاں بھی عدالت نے جانچ ایجنسی کو پھٹکار لگائی ہے۔ ان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ایف آئی آر کس نے اپ لوڈ کی تھی۔ صحافیوں سے براہ راست سوالات پوچھے گئے ہیں، انہیں کوئی سمن نہیں بھیجا گیا۔
بھارت ایکسپریس۔