15 دن سے مردہ خانے میں رکھی لاش تدفین کا انتظار کررہی ہے۔ وجہ تدفین کولے تنازعہ ہے۔ اس بات پر جھگڑا تھا کہ کہاں دفن کیا جائے۔ بیٹے کی خواہش ہے کہ اس کے والد کو گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دی جائے۔ معاملہ چھتیس گڑھ کا ہے۔ متوفی عیسائی تھا۔ گاؤں کے قبائلی احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی عیسائی شخص کو قبائلی قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیں گے۔ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ لاش مردہ خانے میں پڑی ہے۔ ہائی کورٹ نے قبائلی قبرستان میں مسیحی شخص کی تدفین کی اجازت نہیں دی۔ اس فیصلے کے خلاف مقتول کے بیٹے نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ چھتیس گڑھ حکومت نے سپریم کورٹ میں دلیل دی ہے کہ قبائلی ہندوؤں کے قبرستان میں عیسائی شخص کو دفن کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے اب اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ پورا معاملہ کیا ہے۔
مسیحی شخص کا انتقال 7 جنوری کو ہوا
متوفی شخص نے مہذہب تبدیل کرکے عیسائی بناتھا ،جو ایک پادری کے طور پر کام کرتا تھا۔ ان کا انتقال 7 جنوری کو ہوا۔ متوفی کا بیٹا رمیش بگھیل اپنے والد کو اپنے آبائی گاؤں چھندواڑہ کے قبرستان میں دفن کرنا چاہتا ہے، جہاں اس کے آباؤ اجداد دفن ہیں۔ چھندواڑہ ضلع بستر کا ایک گاؤں ہے۔ گاؤں کے لوگ ہندو قبائلیوں کے لیے بنائے گئے، قبرستان میں ایک عیسائی شخص کی تدفین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے بعد بگھیل نے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی اجازت نہیں دی۔ اس شخص کی لاش 7 جنوری سے مردہ خانے میں پڑی ہے۔ متوفی کے بیٹے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، جس پر عدالت نے بدھ کو فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست گزار اپنے والد کو آبائی گاؤں کے قبرستان میں دفنانا چاہتا ہے
درخواست گزار نے دلیل دی کہ چھندواڑہ گاؤں کے قبرستان میں عیسائیوں کے لیے ایک حصہ ہے، جہاں اس کے خاندان کے دیگر افراد کو پہلے ہی دفن کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف ریاستی حکومت کا موقف ہے کہ گاؤں کا قبرستان ہندو قبائلیوں کے لیے ہے۔ ریاستی حکومت کا استدلال ہے کہ میت کو 20-25 کلومیٹر دور کارکپال نامی گاؤں میں واقع قبرستان میں دفن کیا جانا چاہیے جو کہ عیسائیوں کا قبرستان ہے۔ اس کے لیے انتظامیہ کی جانب سے ایمبولینس بھی فراہم کی جائے گی
سارا معاملہ مذہبی جذبات، تدفین کے حقوق اور سماجی ہم آہنگی کے درمیان ٹکراؤ کا ہے۔ بدھ کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا آخری رسوما ت کے حق کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے اور اس معاملے کو باہمی رضامندی سے حل کیا جانا چاہیے۔
اگر کل کوئی ہندو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کا مطالبہ کرے تو ریاست کی دلیل
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بدھ کو سپریم کورٹ میں دلیل دی، ‘فرض کریں کہ کل ایک ہندو یہ بحث شروع کر دے کہ وہ اپنے خاندان کے فرد کو مسلم قبرستان میں دفنانا چاہتا ہے، کیونکہ اس کے آباؤ اجداد مسلمان تھے اور ہندو مذہب اختیار کر چکے ہیں، تو صورت حال کیا ہو گی؟ ریاست کے نقطہ نظر سے یہ امن عامہ سے متعلق مسئلہ ہے۔ آرٹیکل 25 کے تناظر میں پبلک آرڈر ایک استثناء ہے۔’
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گونسالویس نے مہتا کی دلیل کی مخالفت کی اور اصرار کیا کہ درخواست گزار اپنے والد کو وہیں دفنائے گا، جہاں اس کے آباؤ اجداد دفن تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور چیز کی اجازت دی گئی تو اس سے ایسے معاملات سامنے آئیں گے جہاں دلت افراد، اگر وہ مذہب تبدیل کرتے ہیں، تو ان کی لاشوں کو اپنے گاؤں میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی ۔
بھارت ایکسپریس