Bharat Express

Congress on Places of Worship Act 1991: ‘یہ ہندوستان کے سیکولرازم کی طاقت کے لئے ضروری’، پلیسیزآف ورشپ ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ پہنچی کانگریس

سپریم کورٹ دوسری عرضیوں کوسنتے ہوئے 12 دسمبرکو عبوری حکم جاری کرچکا ہے۔ اس حکم میں پورے ملک کی عدالتوں سے فی الحال مذہبی مقامات کے سروے کا حکم نہ دینے کوکہا گیا تھا۔

کانگریس نے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

نئی دہلی: پلیسیزآف ورشپ ایکٹ سے متعلق کانگریس نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ اس معاملے میں کئی عرضیاں پہلے ہی عدالت میں داخل کی جاچکی ہیں، جو زیرالتوا ہیں۔ ان پر17 فروری کوسماعت ہوگی۔ کانگریس نے اپنی عرضی میں اس قانون کوہندوستان کے سیکولرڈھانچے کے لئے ضروری قراردیا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ دوسری عرضیوں کو سنتے ہوئے 12 دسمبرکوعبوری حکم جاری کرچکا ہے۔ اس حکم میں ملک بھرکی عدالتوں سے فی الحال مذہبی مقامات کے سروے کا حکم نہ دینے کوکہا گیا تھا۔

اس سے پہلے اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی یعنی سی پی ایم بھی 1991 کے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کوبنائے رکھنے کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرچکی ہے۔ سی پی ایم نے پورے ملک میں مساجد اور درگاہوں کے ہندومندرہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے داخل ہورہے مقدموں کی مخالفت کی ہے۔ پارٹی نے اسے سیکولرازم کے لئے خطرہ بتایا۔ سی پی ایم کے پولت بیوروکے رکن پرکاش کرات کے ذریعہ داخل ہوئی عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کو چیلنج دینے والی سبھی عرضیوں کو سپریم کورٹ خارج کردے۔ پارٹی نے کہا ہے کہ یہ قانون ہندوستان کے سیکولرازم ڈھانچے کے مطابق ہے۔

کیا ہے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ؟

1991 کا پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کہتا ہے کہ ملک کے ہرمذہبی مقام کی جوصورتحال 15 اگست 1947 کو تھی، اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ اس قانون کوچیلنج دیتے ہوئے کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہندو، جین، سکھ اور بودھ طبقے کو اپنا حق مانگنے سے محروم کرتا ہے۔ کسی بھی مسئلے کوعدالت تک لے کرآنا ہرشہری کا آئینی حق ہے، لیکن پلیسیزآف ورشپ ایکٹ شہریوں کواس حقوق سے محروم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف انصاف پانے کے بنیادی اختیارکی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی بنیاد پربھی بھید بھاؤ ہے۔ حالانکہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کے موجود ہونے کے بعد مسلسل عبادت گاہوں کے سروے کرائے جانے کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں کیا حکم دیا؟

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پرواضح کردیا تھا کہ مذہبی مقامات سے متعلق نئے مقدمے داخل توہوسکتے ہیں، لیکن عدالتیں انہیں سماعت کے لئے رجسٹرنہ کریں، نہ ان پرکوئی کارروائی کریں۔ پہلے سے چل رہے مقدموں میں بھی سروے سمیت کئی مؤثرحکم نہ دیا جائے۔ اس طرح سے مذہبی مقامات سے متعلق نئے سروے پرپابندی لگ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم سے پہلے ملک کی مختلف ریاستوں میں بڑے پیمانے پراس طرح کے سروے کے لئے عرضیاں داخل کی جا رہی تھیں۔

بھارت ایکسپریس اردو۔

Also Read