سوچیرو ہونڈا، ہونڈا موٹرز کے بانی
سال 1906 تھا۔ سوچیرو ہونڈا جاپان میں ماؤنٹ فوجی کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان عام تھا۔ والد ایک لوہار تھے، جو فارغ وقت میں سائیکل کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ ہونڈا کا بچپن جدوجہد سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے پانچ بھائی اور بہنیں بیماری کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے والدین کو اس اکلوتے بچے سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔ لیکن ہونڈا کو پڑھائی میں کبھی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا ذہن ہر وقت اپنے والد کے ساتھ سائیکلوں کی مرمت میں لگا رہتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے پرزوں سے کھیلتے ہوئے دن گزارتا۔
خوابوں کی تعبیر
16 سال کی عمر میں ہونڈا نے ایک اخبار میں نوکری کا اشتہار دیکھا۔ یہ ٹوکیو کے ایک آٹوموبائل سروس اسٹیشن پر “آرٹ شوکائی” نامی ملازمت تھی۔ وہ اپنا گاؤں اور اسکول چھوڑ کر بڑے بڑے خواب لے کر ٹوکیو پہنچا۔ لیکن یہاں قسمت نے اسے ایک اور امتحان کے لیے تیار کیا۔ اسے آرٹ شوکئی میں صفائی کا کام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ہونڈا مایوس تھا، لیکن ہار ماننا اس کے خون میں شامل نہیں تھا۔ اسے گاؤں واپس آنے میں شرمندگی محسوس ہوئی، اس لیے اس نے کام جاری رکھا۔ چند ماہ بعد ان کی مہارت اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہیں ورکشاپ میں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔
جدوجہد اور سیکھنے کا جذبہ
ہونڈا نے ورکشاپ میں ہر گاڑی اور اس کے پرزوں کو سمجھنا شروع کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں آرٹ شوکائی نے دو اسپورٹس کاریں بنائیں۔ ان میں سے ایک کار نے 1924 میں ہونے والی جاپانی موٹر کار چیمپئن شپ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس ریس میں ہونڈا کا نہ صرف انجینئر تھا بلکہ ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں بھی بیٹھا تھا۔ اس تجربے نے اس کے اندر موٹر سپورٹس کا شوق بیدار کر دیا۔
وہ حادثہ جس نے بدل دی زندگی
1936 میں ہونڈا کو ریسنگ کے دوران ایک المناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کا بایاں ہاتھ ٹوٹ گیا اور چہرے پر گہرے زخم تھے۔ اس حادثے کے بعد اس نے اپنا کیریئر یہیں ختم ہوتے دیکھا۔ نہ وہ مکینک کے طور پر کام کر سکتا تھا اور نہ ہی ریسنگ میں حصہ لے سکتا تھا۔ لیکن ہونڈا نے ہار ماننے کے بجائے کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے باس سے اسپیئر پارٹس بنانے والی کمپنی شروع کرنے کی اجازت مانگی، لیکن انکار کر دیا گیا۔ ہونڈا نے اپنے طور پر اپنی کمپنی “ٹوکائی سیکی ہیوی انڈسٹری” شروع کی اور اپنے دوست شیچیرو کاٹو کو اس کا صدر بنایا۔
آغاز آسان نہیں تھا۔ دن کو وہ اپنا پرانا کام کرتا اور رات کو پسٹن بنانے میں مصروف ہو جاتا۔ تین سال کی محنت کے بعد 1939 میں اس نے ایک پسٹن ڈیزائن کیا۔ لیکن جب اس نے اسے ٹویوٹا کو پیش کیا تو 50 میں سے 47 ڈیزائن مسترد کر دیے گئے۔
موٹر سائیکل کی ایجاد
ہونڈا نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک بار پھر پسٹن تیار کر لیا۔ اس بار اس کا ڈیزائن کامیاب رہا، اور اسے بڑے آرڈر ملنے لگے۔ لیکن ان کی خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی اور اس کی فیکٹری ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گئی تھی۔
جنگ کے بعد جاپان مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ پٹرول کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اسی دوران ہونڈا کو جاپانی امپیریل آرمی کا ایک پرانا انجن ملا۔ اپنی عادت سے مجبور ہو کر ہونڈا کو ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس انجن کو سائیکل میں لگا کر اس کی نقل و حمل کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اس سے آمدورفت آسان ہوگی اور سستی بھی۔ اس نے اس انجن کو سائیکل میں لگا کر سستی اور آسان سواری کی۔ یہ سائیکل ’’سپر کپ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور آتے ہی مارکیٹ میں ہلچل مچا دی۔
دنیا پر قبضہ کرنے کا خواب
ہونڈا کو ریسنگ کا بہت شوق تھا، اس لیے اب انہوں نے اسپورٹس بائیکس بنانے کا فیصلہ کیا۔ وہ موٹر سائیکل ریس میں جاتا اور جیتنے والی بائک کی خاص خصوصیات کو نوٹ کرتا۔ چند سال بعد، ان کی پہلی اسپورٹس بائیک لانچ کی گئی جس نے 1960 کے بین الاقوامی ریسنگ مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
1960 تک، ہونڈا دنیا کی سب سے بڑی موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی بن چکی تھی۔ 1968 تک وہ ایک کروڑ بائک فروخت کر چکے تھے۔ ہونڈا نے اپنی 62 سال کی زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کیا جو کبھی خواب لگتا تھا۔
بھارت ایکسپریس۔