Bharat Express

Umesh Pal Murder Case: امیش پال قتل سانحہ میں مایاوتی نے یوگی حکومت کی تنقید کی، کہا- لا اینڈ آرڈر کے دعووں کی پول کھل گئی

  امیش پال قتل سانحہ میں اہل خانہ نے سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اور بیوی سمیت 7 افراد پر مقدمہ درج کرایا ہے۔

بی ایس پی سربراہ مایاوتی- (تصویر: ANI)

Prayagraj News: یوپی کے پریاگ راج میں دن دہاڑے بی ایس پی رکن اسمبلی راجو پال قتل سانحہ کے اہم گواہ وکیل کرشن کمار پال عرف امیش پال کا گولی مار کر قتل کرنے کے معاملے نے پوری ریاست کو ہلا دیا ہے۔ اس پورے معاملے میں جم کر یوگی حکومت کی تنقید ہو رہی ہے اور اپوزیشن جم کر لا اینڈ آرڈر پر سوال کھڑے کر رہا ہے۔ اس معاملے پر ہفتہ کے روز اسمبلی میں برسراقتدار اور اپوزیشن کے درمیان جم کر بیان بازی ہوئی۔

یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے یوگی حکومت کی تنقید کی۔ وہیں بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی یوگی حکومت کے لا اینڈ آرڈر پر سوال کھڑے کئے۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا،  ‘پریاگ راج میں راجو پال قتل سانحہ کے اہم گواہ وکیل امیش پال اور ان کے سیکورٹی گارڈ کی دن دہاڑے قتل انتہائی مایوس کن اور قابل مذمت ہے۔ یہ حادثہ یوپی حکومت کے لا اینڈ آرڈر کے دعووں کی پول کھولتی ہے۔ حکومت معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کراکر قصورواروں کو سخت سزا دلائے۔

واضح رہے کہ اس پورے معاملے میں سی سی ٹی وی فوٹیج جم کر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ امیش پال پر حملہ کرنے کے لئے پہلے سے ہی شوٹر نشانہ لگاکر بیٹھے تھے۔ جیسے ہی امیش پال کار سے باہر نکلتے ہیں، ویسے ہی شوٹر ان پر گولی چلا دیتے ہیں، جس سے وہ گرجاتے ہیں، لیکن پھر وہ اٹھتے ہیں اور سیڑھیوں پر چڑھنے لگتے ہیں تو پیچھے سے شوٹر دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ حادثہ ان کے گھر کے پاس ہی پیش آیا تھا۔

 عتیق احمد کے دو بیٹوں کو پولیس نے اٹھایا

فی الحال اس پورے معاملے میں پولیس نے پوچھ گچھ کے لئے 7 افراد کو حراست میں لیا ہے، جس میں مافیا عتیق احمد کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف مہلوک امیش پال کی اہلیہ جیا نے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف، بیوی شائستہ پروین اور بیٹے سمیت 7 افراد پر مقدمہ درج کرایا ہے۔ دھومن گنج تھانے میں  147,148,149,302,307,120 بی، 506,34، دھماکہ خیز مواد فائر ایکسپلوسیوز ایکٹ 1908(3)، مجرمانہ قانون ترمیمی ایکٹ 1932 (7)  کے تحت رپورٹ درج کی گئی ہے۔