روس یوکرین جنگ بھلے اب اپنے دوسرے سال میں داخل ہوگیا ہے، بھلے اس پر دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہو، لیکن ان دونوں ممالک کے لئے وقت جیسے ٹھہرسا گیا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کہیں سے اس ٹھہراؤ کے ختم ہونے کے ٹھوس اشارے بھی نہیں مل رہے ہیں۔ ایک سال گزر گیا، لیکن دونوں فریق میں آپسی بھروسے کی کوئی تصویرشکل نہیں اختیار کرپائی ہے۔ اقوام متحدہ میں یوکرین سے روس کے پیچھے ہٹنے والی تجویز پر تین چوتھائی دنیا کی حمایت کے بعد بھی حالات بدلتے ہوئے نہیں نظرآرہے ہیں۔ الٹے روس نے یوکرین کی سرحد پر تقریباً پانچ لاکھ فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے، جو گزشتہ سال جنگ کی شروعات کے وقت تعینات کی گئی روسی فوج کے دوگنے سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی قیادت میں ناٹو ملک یوکرین کو میدان میں بنائے رکھنے کے لئے اسے ہتھیار اورتازہ ترین دفاعی نظام سے مستقل طور پرلیس رہتے ہیں۔ اس سے جنگ میں اب صلح کی بجائے شبیہ کا سوال زیادہ بڑا ہوگیا ہے۔
جدوجہد سے متعلق اس ہفتے کئی اہم واقعات ہوئے ہیں۔ امریکی صدرجو بائیڈن نے یوکرین کا حیرت انگیزدورہ کرکے پوری دنیا کو ضرور حیران کردیا، لیکن یوکرین کو امریکہ کے مستقل حمایت کا پرانا عزام دوہرا کر یہ بھی ظاہر کردیا کہ فی الحال جنگ کے حل میں ان کی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری طرف، پتن بھی ہلکے پڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ تاریخ بدلتے ہی پتن نے اسٹیٹ آف دی نیشن خطاب میں روس پرجنگ تھوپنے کا الزام دوہرایا اوراپنے ملک کے باشندوں سے مغرب کے خلاف ایک لمبی جنگ کے لئے تیار رہنے کا اشارہ کردیا۔ نئی ‘اسٹارٹ’ معاہدے میں روس کی شراکت کومعطل کرنے کے اقدام نے مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات میں کشیدگی کے ایک نئے دورکا امکان پیدا کردیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد روس اورامریکہ کے درمیان جوہری ہتھیاروں پر قابو کرنے والا یہ آخری معاہدہ ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ پھر سے شروع ہوسکتی ہے۔ ویسے تھوڑی امید اس بات سے ہے کہ روس نے ابھی صرف اپنی ہچکچاہٹ دکھائی ہے، وہ پوری طرح سے اس معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے۔
دراصل، اگراس طرح کی چھوٹی توقعات باقی ہیں، تو پورا سال اس معاملے سے متعلق تمام فریقوں کے لئے مایوس کن ثابت ہوا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ ہر جنگ کا ضابطہ ہے۔ روس کی جیت جو کبھی چند دنوں کی بات لگ رہی تھی، یوکرین کے ردعمل اور مغرب سے ملی مدد سے ایک سال بھی وہ ساتھ، ایک سال کے بعد بھی ایک مریچیکا بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف، روس کو اپنے فوجیوں کی حیثیت سے انسانی اورمعاشی پابندیوں کی وجہ سے بھاری کاروباری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، پھر یوکرین کا نقشہ بھی روزانہ بدل رہا ہے۔ پوتن ’جب تک ہے جان، جاری رہے گا گھمسان‘ کا نعرہ بلند کررہے ہیں، تو امریکہ سمیت ناٹو ممالک بھی ’جب تک چلے گی لڑائی، جاری رہے گی ہتھیاروں کی سپلائی‘ والی تھیوری پر قائم نظر آرہے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ایک لمبی جنگ یوکرین کے لئے زیادہ تباہ کن ہوگا کیونکہ پوری لڑائی اس کی سرحدوں کے اندر ہو رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں یوکرین نے اپنا نقشہ بدلنے کے ساتھ ہی ہتھیاروں اور ہزاروں زندگیوں سے بھی ہاتھ دھویا ہے۔ اس کے بنیادی ڈھانچوں پر روز حملے ہو رہے ہیں اور معیشت پست ہوگئی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد یوکرین میں ہی یا پھر آس پاس کے ممالک میں نقل مکانی کا درد جھیل رہے ہیں۔ جنگ نے تقریباً 50 لاکھ بچوں اور نوجوانوں کو براہ راست متاثرکیا ہے۔ ماہرین نفسیات کو خدشہ ہے کہ ان کی آگے کی زندگی معمول کے مطابق نہیں رہ پائے گی۔ بے شک، اپنے حوصلے سے یوکرین کئی نظروں میں ہیرو بنا ہوا ہے ، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ قرض لینے کی زندگی گزار رہا ہے۔ مغربی ممالک سے ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی کے بغیراس کی روسی حملے سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روس کو روکنے کی مجبوری نے مغربی ممالک کو تمام آپسی اختلاف بھلاکر ایک سال سے متحد رکھا ہے، لیکن جنگ روکنے کی قیمت انہیں بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ اب جبکہ جنگ طویل ہوگیا ہے، تو روس – ناٹو ممالک کے درمیان براہ راست لڑائی کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ سیکورٹی سے متعلق یوروپ کی تشویش اور عالمی طاقتوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے خدشات کی وجہ سے عالمی جنگ جیسی بڑی لڑائی کی قیاس آرائی زور پکڑنے لگی ہے۔ یہ خدشہ ڈرانے والی لگ سکتی ہے، لیکن اسے پوری طرح خارج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب کا روس پر پابندی لگانا جیسی بڑی لڑائی کی بحث زور پکڑنے لگی ہے۔
یہ خدشہ ڈرانے والی لگ سکتی ہے، لیکن اسے پوری طرح خارج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب کا روس پر پابندی لگانا سمجھ آتا ہے، لیکن ان پابندیوں کو نظر انداز کر کے روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے والوں کو بھی سزا دینے کی دھمکی غیر جانبدارانہ رخ اپنانے والے ممالک کو روسی خیمے میں جانے کے لئے مجبور کرسکتی ہے، جس سے آگے چل کر جنگ ناگزیر ہو سکتی ہے۔
تاریخ میں امریکہ پہلے بھی ایسے حالات کا ایک اہم کردار رہ چکا ہے۔ 1940 کی دہائی میں، جب کئی ملک دوسری جنگ عظیم میں الجھے ہوئے تھے، تب امریکہ اپنے ممکنہ دشمن ممالک پر نکیل کسنے کے لئے ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ لے کر آیا تھا۔ اس کے ذریعہ امریکی صدرکو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی صوابدید پر فیصلہ کریں کہ وہ دشمن ممالک کو ضروری دفاعی مواد برآمد کرنے کے لئے لائسنس دیا جائے یا ان پر ایسا کرنے سے روک لگائی جائے۔ ان ممالک میں جاپان بھی شامل تھا۔ دفاعی مواد سے شروع ہونے والی پابندیاں آہستہ آہستہ اسلحہ بنانے میں استعمال ہونے والے سامان اور ہوا بازی کے ایندھن تک پہنچ گئیں۔ ایک سال کے اندر، امریکہ نے جاپانی املاک اور بینک اکاؤنٹس کو بھی سیل کردیا۔ لیکن اگر جاپان نے اپنی ضروریات کا تقریباً تمام تیل امریکہ سے امپورٹ کرتا تھا، تو اس کے لئے جائیداد فریج ہونا ایک طرح سے تیل کی فراہمی کے ٹھپ ہونے جیسا تھا۔ آگے چل کر اس پابندی نے جاپان کو جرمنی کے اتحاد میں شامل ہونے اور پھر سال 1941 کے دسممر مہینے میں پرل ہاربر پر حملہ کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے اگلے ہی دن، دوسرے عالمی جنگ میں امریکہ کی انٹری ہوگئی اور آگے جو ہوا، وہ ایسی تاریخ ہے، جس کی دنیا کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
آج دنیا ایک بار پھر واضح طور پرخیموں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ ایک خیمہ امریکہ اور ناٹو ممالک کا ہے، جبکہ دوسرا روس، چین اور ایران کے آس پاس شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس معاملے میں جنوبی افریقہ کا موقف حیران کرنے والا ہے۔ ہندوستان کی طرح جنوبی افریقہ نے بھی پچھلے ایک سال سے غیر جانبدارانہ انداز اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے وقت میں جب روس کے محاصرے میں امریکہ گھیرا بندی میں مصروف ہے، تب جنوبی افریقہ اپنے ملک میں روس اور چین کے ساتھ فوجی مشقوں کے بہانے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے جنوبی افریقہ اپنے ملک میں روس اور چین کے ساتھ فوجی مشق کی میزبانی کر رہا ہے۔ غیر جانبدار ہونا ایک چیز ہے، لیکن فوجی مشق کے بہانے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے جنوبی افریقہ نے اپنی ترجیحات بھی واضح کردی ہیں۔ صرف جنوبی افریقہ ہی کیوں تقریباً پورا افریقی براعظم خود کو اس لڑائی سے دور رکھنا چاہتا ہے۔
لمبے وقت تک افریقہ کی آزادی کے بعد برصغیر جیسے مالی اور برکینا فاسو، جو ایک طویل عرصے سے نوآبادیاتی ہیں، اب وہ اپنی مرضی سے آگے کی راہ طے کرنا چاہتے ہیں۔ اس سب کے بیچ میں، اگر جنگ کی صورتحال بنتی ہے تو، جوہری ہتھیاروں کے خطرے کی وجہ سے سپر پاوروں کے مابین کھلا تصادم انتہائی تباہ کن ہوگا اور یہ صرف کچھ ممالک کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ پوری دنیا اس کے زد میں آئے گی۔ لہذا ، اس لئے جنگ کا ختم ہونا عالمی سلامتی کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔
لیکن یہ ہوگا کیسے؟ عام طور پر جنگ کا فیصلہ کسی ایک فریق کی جیت اورشکست سے ہوتا ہے یا پھر کسی معاہدے تک پہنچ کر ہوتا ہے۔ تاہم اس معاملے میں پہلے متبادل کا امکان فی الحال دور دور تک نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے روس اور یوکرین کو آپس میں بات چیت کے لئے تیار رہنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ذمہ داری اٹھائے گا کون؟ پچھلے ایک سال میں، ہندوستان اس کردار کے لئے دنیا کے متفقہ انتخاب کے طور پر ابھرا ہے۔ ہندوستان نے شروع سے ہی جنگ کے بارے میں غیر جانبدارانہ مؤقف اختیار کیا ہے اور روس کے اس اقدام کی عوامی مذمت سے بھی پرہیز کیا ہے۔ تاہم، مغربی ممالک کے دباؤ کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ سوال بھی اٹھتا رہا ہے کہ ہندوستان کب تک اس رخ پر قائم رہ سکے گا۔ کچھ دنوں پہلے تو یوکرین نے بھی روس کے ساتھ کاروباری تعلقات برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان کو براہ راست سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ہندوستان نے اپنی اسٹریٹجک اوراسٹریٹجک ترجیحات کو آگے رکھتے ہوئے ہر دباؤ کو درکنارکیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یوکرین خود امید کے ساتھ ہندوستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ گذشتہ سال روسی حملے کے آغاز کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے پوتن اور یوکرین کے صدر ویلادومیرزیلنسکی سے متعدد باربات کی ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں ہونے والے ایک اجلاس میں، وزیراعظم مودی نے دونوں رہنماؤں کے مابین براہ راست گفتگو کی تجویز بھی پیش کی، جس میں پوتن کو ‘آج کا دور جنگ کا نہیں ہے’ کا مشورہ دیا۔ دراصل یہ اس مسئلے کا ایک عام حل ہے۔ جنگ کے میدان میں دونوں طرف سے چاہے جتنا بارود خرچ ہو، آخر کار دونوں ممالک کو بات چیت کے لئے ایک میز پر آنا ہی ہوگا۔ جمہوریت ، بات چیت اور سفارت کاری ہی اس جدوجہد کا آخری پڑاو ہوسکتا ہے۔