Bharat Express

Functional Rank of Delhi Police becomes history: کیا ڈی فنکشنل ہوجائے گا دہلی پولیس کا فنکشنل رینک؟

دہلی پولیس میں جب تک ضرورت کے مطابق انتظامات نہیں کئے جاتے تھے، کارگزار یعنی لُک آفٹر پرموشن ہوتے تھے۔ ان میں انسپکٹروں کو اے سی پی (لُک آفٹر) بنانے کے لئے لیفٹیننٹ گورنرکی اجازت لینی پڑتی تھی۔

دہلی پولیس (علامتی تصویر)

دہلی پولیس نے تقریباً 1600 انسپکٹروں اورسب انسپکٹروں کو محکمہ میں اے سی پی اورانسپکٹرکا فنکشنل رینک تو دے دیا، لیکن ایسے تمام افسران عہدوں پر کام نہیں کر پا رہے ہیں۔ کیونکہ آئینی معاملوں میں ان عہدوں پر کام نہیں کیا جاسکتا۔ ذرائع کی مانیں توان کی تنزلی بھی کی  جا سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی افسراس بارے میں بولنے سے بچ رہا ہے۔

دہلی پولیس میں گزشتہ سال تقریباً اپریل سے جولائی کے درمیان تقریباً 215 انسپکٹروں کو اے سی پی اور تقریباً 1381 سب انسپکٹروں کو انسپکٹرکےعہدے پرتعینات کیا گیا تھا۔ چونکہ اس وقت پولیس محکمہ میں اتنے عہدے دستیاب نہیں تھے، توان سبھی کی تقرری فنکشنل رینک کی بنیاد پرکی گئی تھی۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سے افسر کاغذی طور پر پروموشن ہونے کے باوجود پرانی جگہ پر ہی کام کر رہے ہیں، لیکن ایک معاملے میں عدالت میں سوال کھڑا ہوتے ہی ان کے کام کاج پر روک لگا دی گئی۔ کیونکہ یہ افسرکئی حساس معاملوں میں فنکشنل رینک کے تحت کام کرنے کے لئے مجاز ہی نہیں ہیں۔ بہرحال محکمہ میں گرم ہوتا ہوا یہ معاملہ مسلسل پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

اعلیٰ عہدوں کا کنٹرول

دہلی پولیس میں بنیادی طور پر دو زمروں کے افسراورملازم کام کرتے ہیں۔ پہلے زمرے کے افسران جن میں آئی پی ایس اور دانپس شامل ہیں۔ ان کی بھرتی یوپی ایس سی کے ذریعہ ہوتی ہے اوران کا کیڈرکنٹرول مرکزی وزارت داخلہ کرتا ہے۔ اس کیڈر کی ترقی اورنظم وضبط سے متعلق معاملات میں مرکزی حکومت یا لیفٹیننٹ گورنر کی سفارش لازمی ہوتی ہے۔

انسپکٹر کے عہدے تک کا نظام

عوام کی سیکورٹی میں تعینات پولیس اہلکاروں کی بھرتی صرف سپاہی اورسب انسپکٹر کے عہدے پرہوتی ہے۔ ایس ایس سی کے ذریعہ ہونے والی اس بھرتی کے بعد یہ پروموشن پاکرانسپکٹراوراے سی پی کے عہدے تک پہنج جاتے ہیں۔ سپاہی سے انسپکٹرتک کا کیڈر کنٹرول خود دہلی پولیس کرتی ہے۔

یہ ہے تنازعہ کا موضوع

دہلی پولیس میں صرف آئی پی ایس اور دانپس کیڈر تک کے افسران کا پرموشن کرنے والا مرکزی وزارت داخلہ عموماً ہر پانچ سال میں ڈی پی سی تشکیل کرتا ہے۔ چونکہ دہلی پولیس کے انسپکٹرپروموشن کے بعد دانپس کیڈر کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان کے پروموشن کے لئے بھی وزارت داخلہ ہی ہرسال ڈی پی سی تشکیل کرتا تھا۔ تاہم گزشتہ تقریباً چار سال سے ڈی پی سی نہیں بنائی گئی ہے، جسے لے کر ریٹائرمنٹ سے پہلے پروموشن کا انتظار کر رہے انسپکٹروں میں ناراضگی پیدا ہونے لگی تھی۔

پہلی بار بنے فنکشنل افسر

دہلی پولیس میں عام طور پر ضرورت کے لحاظ سے انتظام ہونے تک کارگزار یعنی لُک آؤٹر پرموشن ہوتے تھے۔ ان میں انسپکٹروں کو اے سی پی (لُک آؤٹر) بنانے کے لئے لیفٹیننٹ گورنر کی اجازت لینی ہوتی تھی، جس کی پیچیدگی اورکاغذی کارروائی سے بچنے کے لئے گزشتہ سال فنکشنل رینک کا مسودہ تیار کیا گیا اورسیکورٹی نظام سے وابستہ 144 انسپکٹروں اور569 سب انسپکٹروں کو اے سی پی اوراسنپکٹر کے عہدوں پرتعینات کردیا گیا۔ جبکہ کمیونیکیشن، اسٹونو اورمنسٹریل وغیرہ سروس کے بھی 71 انسپکٹروں اور 827 سب انسپکٹروں کو لُک آفٹر عمل میں پروموشن دیا گیا۔

عدالتی کیس نے خراب کیا معاملہ

ان تمام افسران کو فنکشنل بنیاد پرپروموٹ تو کردیا گیا، مگرسبھی کواس کے مطابق ڈیوٹی اورسہولت نہیں دی گئی۔ کچھ وقت پہلے این ڈی پی ایس کے ایک مقدمے میں فنکشنل رینک کے اے سی پی نے رپورٹ داخل کی تھی۔ چونکہ این ڈی پی ایس کے معاملوں میں گزیٹڈ افسرکی قیادت لازمی ہوتی ہے۔ بچاؤ فریق کے وکیل نے اے سی پی کے فنکشنل رینک پرسوال اٹھاتے ہوئے ان کے دستخط سے جمع رپورٹ پراعتراض ظاہر کیا۔ عدالت نے پولیس ہیڈ کوارٹرسے جواب طلب کیا کہ اعلیٰ افسران نے راستہ نکالنے کے بجائے پورے فنکشنل رینک کی ہی بلی چڑھا دی۔ اس کے ساتھ ہی 10 جنوری کو حکم جاری کرکے ان کے کام کاج کو بھی ممنوع کردیا گیا۔

اب کیا ہوگا؟

اس کے ساتھ ہی فنکشنل رینک سے متعلق پولیس ہیڈ کوارٹرمیں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ دہلی پولیس کے ایک افسرکے مطابق، فنکشنل رینک سے اے سی پی یا انسپکٹرکے عہدے پرکام کر رہے افسرآئینی طور پرکسی کھاتے میں نہیں آتے ہیں۔ ایسے میں آئینی لازمیت والے امور میں عہدے پر دیئے گئے ان کے احکامات بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ ایسے میں یا تواتنے زیادہ پوسٹس بنا کرانہیں جذب کرنا پڑے گا یا پھران کو ڈیموٹ کرکے ان کی پوسٹوں پر واپس آنے کے سوا کوئی متبادل نہیں بچا ہے۔ تاہم اب یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہوچکا ہے کہ کوئی بھی افسراس بارے میں کچھ نہیں بولے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس ترجمان سمن نلوا اس بارے میں کچھ بھی بولنے سے انکار کردیتی ہیں۔