ججوں کو اکثر ان کی چھٹیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں اس حوالے سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں چھٹیوں کو لے کر تنقید کی گئی ہے۔ اس وقت کے وزیر قانون کرن رجیجو نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ ہیمنت سورین کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تعطیلات کو لے کر تنقید پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس دیپانکر دتہ اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے کہا کہ تعطیلات کے دوران بھی وہ آدھی رات کو جاگ کر درخواستیں پڑھ رہے ہیں، پھر بھی انہیں تنقید سننی پڑتی ہے۔ زیادہ تر مقدمات میں عدالت حکومت کی تاخیر کو معاف کر دیتی ہے اور پھر سماعت ہوتی ہے۔ ججوں کے بارے میں کہنا آسان ہے، کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ جسٹس دتہ نے کہا کہ عدلیہ کے پاس سب سے زیادہ کام ہے۔ جسٹس ستیش چندر شرما نے کہا کہ زیادہ تر ہائی کورٹ ایسے مقدمات کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت کرتی ہے۔ جج اپنا کام کرتے ہیں لیکن لوگ تنقید کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جسٹس شرما نے کہا کہ مرکزی حکومت سے وابستہ ایک شخص نے گزشتہ ہفتے چھٹیوں پر ایک بڑا مضمون لکھا ہے، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا کہ حکومت خود اپنی درخواستیں کتنی دیر سے داخل کرتی ہے۔
چھٹیوں کے بارے میں طویل بحث
ججوں کی ان چھٹیوں کو لے کر کافی دنوں سے بحث چل رہی ہے، جس پر سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس بی آر گوائی نے بھی اپنا ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ یہ چھٹیاں تو دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ججوں کو ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں ملتی۔ سی جے آئی نے کہا تھا کہ ہمارے لیے جج ایک دن کی چھٹی نہیں لیتے۔
جسٹس گوائی نے کہا تھا کہ جج گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی فیصلے لکھتے ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ سال 2022 میں اس وقت کے وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا تھا کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ لمبی چھٹیاں ان لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں جو مقدمات میں انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ عدلیہ تک یہ پیغام پہنچانا ان کی ذمہ داری اور فرض ہے۔
بھارت ایکسپریس۔