کیا یوپی میں مینکا گاندھی بناسکیں گی نیا ریکارڈ؟ بی جے پی کے کئی بڑے اسٹار بھی رہے ناکام
اتر پردیش کی سلطان پور لوک سبھا سیٹ پر چھٹے مرحلے میں 25 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔ ایسے میں انتخابی مہم میں زیادہ وقت نہیں بچا ہے۔ اس سیٹ سے بی جے پی ایم پی مینکا گاندھی دوبارہ میدان میں ہیں۔ اس کے باوجود یہاں نہ تو انتخابی مہم کا زیادہ شور سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی بی جے پی کا کوئی بڑا چہرہ ان کی حمایت میں سامنے آیا ہے۔ مینکا گاندھی نے اپنے کام کے بل بوتے پر اکیلے ہی انتخابات کی کمان سنبھالی ہے۔
مینکا گاندھی آٹھ بار ایم پی رہ چکی ہیں۔ اگر وہ اس بار بھی انتخابات جیت جاتی ہیں ۔تو ان کا نام ملک کے ان چند ارکان پارلیمنٹ کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جو نو مرتبہ ملکی پارلیمنٹ کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ لیکن اس باریہ الیکشن ان کے لیے اتنا آسان نہیں لگتا۔ اس سیٹ پر نشاد برادری کی اکثریت ہے اور ذات پات کے مساوات کو حل کرنے کے لیے ایس پی نے رام بھول نشاد کو میدان میں اتارا ہے، جب کہ بی ایس پی کی جانب سے اُدراج ورما امیدوار ہیں۔ جس کی وجہ سے اس سیٹ پر لڑائی سہ رخی ہو گئی ہے۔
مینکا گاندھی نے اکیلے سنبھالی انتخابات کی ذمہ داری
مینکا گاندھی کئی دنوں سے سلطان پور میں دن رات انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ انہوں نے خود ضلع کی 1200 گرام پنچایتوں میں سے 1100 گرام پنچایتوں کو جوڑنے کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ وہ بہت سے لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے۔ ان کی حمایات میں نہ توسی ایم یوگی آدتیہ ناتھ، نہ ہی وزیر اعظم نریندر مودی یا کسی دوسرے بڑے لیڈر نے ان کی حمایت میں کوئی جلسہ نہیں کیا۔
مانا جا رہا ہے کہ مینکا گاندھی نے اس سیٹ پر تمام ذاتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ پولرائزیشن کی سیاست یہاں ان کا کھیل خراب کرے۔ مینکا گاندھی دوسری بار سلطان پور سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس سے پہلے 2014 میں ان کے بیٹے ورون گاندھی اس سیٹ سے ایم پی رہ چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ورون گاندھی بھی اپنی ماں کی حمایت میں انتخابی مہم کے لیے نہیں آئے ہیں۔ پیلی بھیت سے ان کا ٹکٹ منسوخ ہونے کے بعد وہ بی جے پی کے کسی پلیٹ فارم پر نظر نہیں آئے۔
سلطان پور میں بی جے پی کی مینکا گاندھی کا مقابلہ ایس پی کے رام بھول نشاد سے ہے۔ رام بھول نشاد بی جے پی چھوڑ کر ایس پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ بی ایس پی میں بھی رہ چکے ہیں۔