
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے درمیان ترکیہ نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ ترکیہ نے سینکڑوں ڈرونز اور ملٹری آپریٹیو بھیج کر پاکستان کو تکنیکی اور اسٹریٹجک مدد فراہم کی، جس کی وجہ سے بھارت میں ترکی کے خلاف شدید غصہ پایاجاہا ہے ۔ اس غصے کا اثر سوشل میڈیا پر دیکھائی دے رہے ہے، جہاں #BoycottTurkey ٹرینڈ کرنے لگا اور بھارت نے تجارت سے لے کر سیاحت تک ترکی سے خود کو دور کرنا شروع کردیا۔ لیکن اس دوران امریکہ کی جانب سے ترکیہ کو میزائل فروخت کرنے کے فیصلے نے ہندوستان میں ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا ہے۔
امریکا نے ترکیہ کو 304 ملین ڈالر مالیت کے میزائل فروخت کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور ترکیہ کھل کر پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ میزائل معاہدے میں ترکیہ کے لیے ہوا سے فضا میں مار کرنے والے AIM-120 AMRAAM میزائل شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ترکیہ نے 225 ملین ڈالر کی لاگت سے 53 ایڈوانسڈ میڈیم رینج میزائل اور 79.1 ملین ڈالر کی لاگت سے 60 بلاک سیکنڈ میزائل کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی (DSCA) نے تجویز کیا ہے، لیکن اسے امریکی کانگریس کی منظوری ملنا باقی ہے۔ اگر یہ معاہدہ منظور ہو جاتا ہے تو اس سے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
امریکہ اور ترکیہ کے درمیان نیٹو تعاون
اس اقدام کو امریکہ اور ترکیہ کے درمیان نیٹو تعاون کو مضبوط بنانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ترکیہ نیٹو کا ایک بڑا رکن ہے اور اسے امریکہ کے اسٹریٹجک ملٹری پارٹنرز میں شمار کیا جاتا ہے ،لیکن بھارت میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب ترکیہ بھارت کے دشمن پاکستان کو فوجی مدد دے رہا ہے ،تو کیا امریکہ کی طرف سے اسے میزائل فروخت کرنا بھارت کے خلاف ایک طرح کی ڈبل گیم نہیں؟
ترکیہ نے پاکستان کو مدد فراہم کی
یہ معاملہ اس وقت زیادہ حساس ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ حال ہی میں ترکیہ نے پاکستان کو 350 سے زائد ڈرون اور آپریٹنگ فوجی فراہم کیے ہیں۔ یہ ڈرون بھارت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں اور سرحد پار نگرانی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہی نہیں ترکی نے بھارت کے خلاف بیانات میں بھی پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی عوام اور سیاسی تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکہ کو اس معاہدے کو فی الوقت روک دینا چاہئے تھا؟
ہندوستانی ماہرین کی رائے
ہندوستان کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کا یہ قدم اس کی دوہری پالیسی کو بے نقاب کرتا ہے۔ ایک طرف وہ ہندوستان کو QUAD جیسے فورمز پر اسٹریٹجک پارٹنر کہتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی حمایت کرنے والے ملک کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں بداعتمادی پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ یہ معاہدہ نیٹو اتحادی کے طور پر ترکیہ کی سکیورٹی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہے نہ کہ بھارت کے خلاف کوئی سازش۔ سفارتی طور پر دیکھا جائے تو اس معاہدے کا وقت اور حالات بہت حساس ہیں۔
ترکیہ اور امریکہ کے درمیان کشیدگی
ترکیہ اور امریکا کے درمیان اس سے پہلے بھی کشیدگی رہی ہے، خاص طور پر جب ترکیہ نے روس سے S-400 میزائل دفاعی نظام خریدا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے ترکیہ کو F-35 لڑاکا جیٹ پروگرام سے باہر کر دیا اور اس پر CAATSA (Countering America’s Adversaries Through Sanctions Act) کے تحت پابندیاں بھی عائد کر دیں ،لیکن اب نئی ڈیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ترکیہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکیہ نے متعدد بار امریکا سے درخواست کی ہے کہ اسے دوبارہ ایف 35 پروگرام میں شامل کیا جائے ،امریکا کی جانب سے تاحال کوئی واضح جواب نہیں آیا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اگر ترکی روس کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو محدود کرتا ہے، تو کیا امریکہ پابندیاں اٹھائے گا۔
بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔