Bharat Express

Vivek Tankha’s retort to BJP leaders’ statement: ’’اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جا سکتا…‘‘، بی جے پی لیڈران کے ’بٹو گے تو کٹو گے‘ کے بیان پر کانگریس لیڈر وویک تنکھا کا سخت ردعمل

وویک تنکھا نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں انتخابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مقامی امیدواروں کی شناخت اور اپنے علاقے کے تئیں ان کی لگن بہت اہم ہے۔ ہر شہری کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا نمائندہ ہو، جو اس کے علاقے کو اچھی طرح سمجھے اور ان کے ساتھ آسانی سے بات چیت کر سکے۔

کانگریس لیڈر وویک تنکھا

بھوپال: کانگریس لیڈر وویک تنکھا نے جمعرات کے روز بی جے پی لیڈروں کے ’بٹو گے تو کٹو گے‘ کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسے بیانات پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ جب آپ ایسے بیانات دیتے ہیں تو یہ آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔ یہ قانون کے خلاف ہے اور اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

وویک تنکھا نے کہا، ’’ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں، جہاں مختلف قسم کے مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسے حالات میں ہمارے ملک میں بھائی چارے اور اتحاد کا جذبہ غالب رہے۔ اگر ہم تلخیاں لے کر چلیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’بی جے پی لیڈروں کے بیانات، خواہ غریبی ہو یا دیگر مسائل پر، اکثر تفرقہ انگیز ہوتے ہیں۔ ایسے بیانات ہماری آئینی اقدار کے خلاف ہیں۔ ہم ایک سیکولر ملک ہیں، جہاں 140 کروڑ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اگر ہم تلخی اور تصادم کی کیفیت کو برقرار رکھیں گے تو ترقی ممکن نہیں۔ ہمیں خیر سگالی اور بھائی چارے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، تب ہی ہم ترقی کر سکیں گے۔‘‘

کانگریس لیڈر نے بدھنی اسمبلی سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے امیدوار راجکمار پٹیل اس انتخابی ماحول میں ہمارے امیدوار ہیں، اور ان کی پوزیشن اس وقت بہت مضبوط ہے۔ علاقائی عوام ان کے ساتھ ہے اور ان کے ساتھ گہرے جذبات وابستہ ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی کے لوگوں میں پھوٹ پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے ودیشا کے امیدوار بھارگو صاحب کو بدھنی علاقہ سے دعوت نامہ نہیں مل رہا ہے۔ اس سے علاقائی جذبات واضح طور پر ابھرے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’مدھیہ پردیش میں انتخابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مقامی امیدواروں کی شناخت اور اپنے علاقے کے تئیں ان کی لگن بہت اہم ہے۔ مثال کے طور پر جبل پور میں مقامی امیدواروں کو ان کے جائز مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ سے الیکشن لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام ناراض ہو جاتی ہے۔ ہر شہری کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا نمائندہ ہو، جو اس کے علاقے کو اچھی طرح سمجھے اور ان کے ساتھ آسانی سے بات چیت کر سکے۔‘‘

بھارت ایکسپریس۔