دشمیش اسکالرشپ اور اسٹوڈنٹ ری امبرسمینٹ اسکیم میں کا گھپلہ!
اتر پردیش کے سینکڑوں کالجوں نے دشمیش اسکالرشپ اور اسٹوڈنٹ ری امبرسمینٹ اسکیم کے تحت سینکڑوں کروڑ روپے کی رقم ہضم کر لی ہے۔ گزشتہ سال معاملے کے انکشاف کے بعد انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے اس کیس کی تحقیقات شروع کی تھی۔ جس میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے تھے۔ جانچ میں پتہ چلا کہ سینکڑوں اداروں نے فرضی طلباء کے نام پر کروڑوں روپے کی گرانٹ کا غبن کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ نے سماجی بہبود کے ڈائریکٹوریٹ کو ایک خط لکھ کر اداروں سے ان طلباء کی فہرست طلب کی ہے، جن کو اس اسکیم کے تحت گرانٹ کے لیے دستاویزات جمع کرائے گئے تھے۔ ذرائع کی مانیں تو کئی ایسے معروف تعلیمی ادارے بھی اس کارروائی میں شامل ہیں جو گزشتہ دہائی میں اتر پردیش پرائیویٹ اداروں کے طور پر سرفہرست سمجھے جاتے ہیں۔
کیا ہے منصوبہ
دراصل اتر پردیش کے تعلیمی اداروں میں شیڈیول کاسٹ اور مسلم لڑکیوں کو دشمیش اسکالرشپ دی جاتی ہے۔ اس کے تحت حکومت 10,000 روپے سے 50,000 روپے تک کی گرانٹ دیتی ہے۔ پہلے یہ رقم ڈائریکٹ نجی اداروں کے کھاتوں میں جاتی تھی۔ لیکن بعد میں مرکزی حکومت نے اس رقم کو مستحق طلباء کے کھاتوں میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس گرانٹ میں گھپلے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
کیسے ہوا کھیل
ذرائع کے مطابق جب اسکیم شروع ہوئی تو ریاست میں کئی ایسے ٹھیکیدار سرگرم ہوگئے جنہوں نے شیڈیول کاسٹ اور مسلم طالبات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد پرائیویٹ اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ایسے بچوں کے نام ان کے طالب علم کے طور پر رجسٹر کیے گئے جو حقیقت میں پڑھنے نہیں آئے تھے۔ بعد میں جب حکومت کی طرف سے ان طلباء کے نام گرانٹ آئی تو انہوں نے آپس میں تقسیم کر لی۔ بعد میں جب آدھار کارڈ کے ذریعے طلباء کے کھاتے کھولنے اور انہیں ڈائریکٹ گرانٹ بھیجنے کا عمل شروع ہوا تو پرائیویٹ اداروں نے ان بچوں کے کھاتوں سے منسلک ڈیبٹ کارڈ اپنے پاس رکھنا شروع کر دیا۔ جس میں سے ایک بڑا حصہ یہ ادارے ٹھیکیداروں کے ساتھ بانٹ لیتے تھے اور ایک چھوٹا حصہ ان طلباء کو دے دیا جاتا تھا جو دراصل صرف ان کے اداروں کے طالب علم دکھائے گئے تھے، لیکن انہوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی۔
سرکار نے کتنی گرانٹ دی
حکومت کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو پچھلے سات سالوں میں تقریباً 3700 کروڑ روپے کی گرانٹ دی جا چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی اداروں اور ٹھیکیداروں نے اس میں سے بہت بڑی رقم ہڑپ کی ہے۔ سالانہ دی گئی گرانٹ کی رقم حسب ذیل ہے۔
مالی سال درخواست دہندگان طلباء کی تعداد مستفید طلباء کی تعداد تقسیم شدہ رقم (کروڑ روپے)
2014-15 13,93,365 12,72,915 466.90
2015-16 13,01,955 10,44,638 355.09
2016-17 20,47,366 13,64,070 433.74
2017-18 20,73,531 18,78,452 535.37
2018-19 21,83,940 18,13,891 564.08
2019-20 21,85,490 20,22,865 609.72
2020-21 20,00,302 12,03,476 335.36
جانچ میں ہوا انکشاف
دراصل متھرا میں مالی سال 2015-16 سے 2019-20 تک نجی آئی ٹی آئی میں اسکالرشپ اور فیس کی باز ادائیگی کی شکایات موصول ہونے کے بعد ڈائریکٹوریٹ کی سطح پر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جس میں 22.99 کروڑ روپے کا گھوٹالہ سامنے آیا تھا۔ اس معاملے میں 71 پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ساتھ محکمہ سماجی بہبود کے افسران معطل ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جا چکی ہے۔ متھرا کے 45 نجی آئی ٹی آئی اور 13 دیگر نجی اداروں کو بھی بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔
لکھنؤ میں بھی ہوا تھا انکشاف
اسی طرح کے گھوٹالے کے سلسلے میں مارچ کے مہینے میں حضرت گنج کوتوالی میں ایس ایس آئی دیا شنکر دویدی نے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ جس میں 10 اداروں کے منیجرز اور ملازمین سمیت 18 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ ابتدائی تحقیقات میں ان سبھی پر مرکزی اور ریاستی حکومت کی اسکیم کے تحت پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی تقسیم میں گھپلے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس واقعہ کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بھی تفتیش کی تھی۔ معاملہ طول پکڑنے پر ایس آئی ٹی تشکیل دے کر جانچ کے احکامات دیے گئے تھے۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کس رہا ہے شکنجہ
گزشتہ مہینے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے کانپور دفتر کی جانب سے ریاست کے محکمہ سماجی بہبود کو ایک خط لکھ کر ایسے تمام اداروں اور طلباء کی فہرست مانگی گئی ہے جنہوں نے اس اسکالرشپ کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس میں منی لانڈرنگ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے 2014-15 سے 2022-23 تک کی معلومات کو ایک مخصوص فارمیٹ میں دستیاب کرانے کو کہا گیا ہے۔ جس کے بعد محکمہ سماجی بہبود میں بھی ہلچل مچ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سارا کھیل ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر افسران کی ملی بھگت سے چل رہا تھا۔
محکمہ سماجی بہبود نے طلب کی لسٹ
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی کارروائی کے بعد حرکت میں آنے والے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے تمام ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر افسران سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس کے لیے علی گڑھ، پریاگ راج، اعظم گڑھ، بہرائچ، بلیا، بریلی، ایودھیا، فرخ آباد، غازی پور، گورکھپور، ہردوئی، لکھیم پور کھیری، کشی نگر، لکھنؤ، مہاراج گنج، متھرا، مرزا پور، مراد آباد، رائے بریلی، سنبھل، شاہجہاں پور، سپورتا پور، شہنشاہ پور اناؤ، بارہ بنکی، وارانسی، چترکوٹ، بندہ، آگرہ، دیوریا اور جونپور اضلاع سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کو کہا گیا ہے۔
جعل میں پھنسیں گے بڑے مگرمچھ
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے میں کئی بڑے لیڈران اور ایجوکیشن مافیا شکنجے میں آ سکتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے لیڈر بھی شامل ہیں جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی میں اپنی حیثیت کروڑوں روپے کی بنائی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی تعلیمی گھرانے بھی ہیں، جن کی شناخت ریاست میں بڑے تعلیمی گروپوں کے طور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایکٹیو ہونے سے ان سبھی میں ہلچل مچ گئی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔