Bharat Express

No fault of police in Atiq Ahmad’s murder: عتیق احمد اور اشرف قتل کیس میں یوپی پولیس کو کلین چٹ،تحقیقاتی رپورٹ نے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات کا کیا انکشاف

یوپی پولیس کو عتیق احمد اور اشرف قتل کیس میں کلین چٹ مل گئی ہے۔ جمعرات کو اسمبلی میں پیش کی گئی جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں پولیس کو اس معاملے میں بے گناہ قرار دیا گیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عتیق احمد اور اشرف کا قتل پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا۔

یوپی پولیس کو عتیق احمد اور اشرف قتل کیس میں کلین چٹ مل گئی ہے۔ جمعرات کو اسمبلی میں پیش کی گئی جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں پولیس کو اس معاملے میں بے گناہ قرار دیا گیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عتیق احمد اور اشرف کا قتل پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا۔ پولیس کے لیے اس واقعے سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ پولیس کی طرف سے کوئی غفلت نہیں برتی گئی۔ اتر پردیش کے سابق رکن اسمبلی عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ریاست اور پولیس مشینری کے درمیان کوئی ملی بھگت نہیں تھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس دلیپ بابا صاحب بھوسلے کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قتل ایک منصوبہ بند سازش نہیں تھی، جس سے بچا نہیں جا سکتا تھا۔ کمیشن کی تحقیقات میں پولیس یا ریاستی مشینری کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی، جس کے بعد یوگی کابینہ نے اس تحقیقاتی رپورٹ کو ایوان کی میز پر رکھنے کی منظوری دے دی۔ عتیق احمد اور اشرف کو 15 اپریل 2023 کو پریاگ راج کے کولون ہسپتال میں قتل کر دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے دوران 87 گواہوں کے بیانات، سی سی ٹی وی اور ویڈیو فوٹیج کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن نے پایا کہ یہ واقعہ اچانک ہوا اور پولیس اہلکاروں کا ردعمل فوری اور نارمل تھا۔

یہ قتل محض نو سیکنڈ میں ہوا، جس میں پولیس کو مداخلت کرنے کا کوئی وقت نہیں ملا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس نے عتیق اور اشرف کی سیکیورٹی کے لیے معمول سے زیادہ اہلکار تعینات کیے تھے۔ جیل سے لے کر ریمانڈ تک سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ تاہم میڈیا کی موجودگی پولیس کے کام میں رکاوٹ بنی اور قتل کے دوران میڈیا والوں کی سرگرمیوں پر سوالات اٹھائے گئے۔

کمیشن نے حملہ آوروں کے محرکات پر بھی روشنی ڈالی جنہوں نے شہرت حاصل کرنے کے لیے میڈیا کی موجودگی میں عتیق اور اشرف کا قتل کیا۔ اس واقعے سے پولیس کو اہم معلومات بھی حاصل ہوئیں، جیسے کہ عتیق اور اشرف کے دہشت گرد تنظیموں اور آئی ایس آئی سے تعلقات تھے۔ کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ عتیق احمد اور اشرف کے قتل میں پولیس اور ریاستی مشینری کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔رپورٹ میں میڈیا کے کردار اور پولیس کی تیاریوں کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات پیش کی گئی ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read