Bharat Express

Promises to the Muslims of Telangana: تلنگانہ میں مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدوں کو کب پورا کریں گے کے سی آر؟

تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے ریلی کو خطاب کیا۔ (تصویر کریڈٹ: اے این آئی)

دو جون 2014 کو ریاست آندھر اپردیش سے الگ ہوکر ریاست تلنگا نہ کا وجود عمل میں آیا، اس وقت کے ‘ٹی آر ایس یعنی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی’ جو کہ اب ‘بی آر ایس یعنی بھارتیہ راشٹریہ سمیتی’ کے نام سے تبدیل ہوچکی ہے، کہ سربراہ چندر شیکھر راؤ نے نو تشکیل شدہ ریاست کی باگ ڈور سنبھالی اورانہوں نے ریاست کے دارلحکومت حیدر آباد کی ترقی کے لئے بھی کئی وعدے کئے۔ تلنگانہ کی تعمیر و ترقی کے علاوہ انہوں نے ریاست کے 12 فیصد مسلمانوں سے بھی کئی ایک وعدے کئے، لیکن نوسال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان وعدوں پر عمل آوری نہیں ہوئی ہے۔ ریاست کے مسلمان اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ آخر حکومت کی جانب سے ریاست کے مسلمانوں کے پسماندگی کو دیکھتے ہوئے بارہ فیصد ریزرویشن کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس پر عمل آوری کب ہوگی؟اس کے علاوہ دیگر کئی ایسی اسکیمات ہیں جن سے مسلمان محروم نظر آتے ہیں۔

تلنگانہ میں مسلمانوں سے نا انصافی اور سرکاری اسکیمات سے محرومی پر مسلمان اب شکوہ کناں ہیں۔ تلنگانہ میں دلتوں کے لئے 10 لاکھ کی مالی امداد کی اسکیم ’دلت بندھو’ کے  علاوہ ریاستی حکومت نے 6 جون کو پسماندہ طبقات کے لئے ایک لاکھ روپیے مالی امداد کی اسکیم کا اعلان کیا، تاہم اس اسکیم سے مسلمانوں کو مستثنی رکھتے ہوئے انہیں اس طبقہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔27  مئی کو کابینہ اجلاس میں کابینی ذیلی کمیٹی نے بی سی طبقہ کے پیشہ ور افراد اورکاریگروں کے لئے کاروبا ر کو بہتر بنانے کے لئے ایک لاکھ روپیہ مالیت کی امداد جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسے منظوری بھی دی تھی، اس کے علاوہ درخواستوں کی وصولی بھی شروع ہوگئی۔20 جون کو وصولی کی آخری تاریخ ہے۔

حکومت کی لاکھ روپیہ امداد کی اسکیم میں بی سی (ای ) کوشامل نہیں کیا گیا جبکہ سرکاری احکام میں ایسی صراحت نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے وہ تمام طبقات جو بی سی زمرہ میں شامل ہیں ان میں کاریگر،پیشہ ور طبقہ کو اس اسکیم سے استفادہ کا موقع رہے گا لیکن سرکاری احکام کے برعکس ویب سائٹ پر صرف بی سی، بی اور بی سی ۔ ڈی سے ہی د ر خواستیں وصول کی جارہی ہیں جبکہ بی ۔ سی (ای) میں مسلم طبقات بھی شامل ہیں جن میں کئی طبقات پیشہ کے اعتبار سے بی سی زمرہ میں ہیں۔

حکومت کی پالیسی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرانے کے لئے تیا رنہیں ہے کیونکہ دلتوں کے لئے ’بندھوا اسکیم’کے بعد یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ’مسلم بندھواسکیم’ شروع کی جائے گی لیکن اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت تو نہیں کی گئی لیکن بی سی طبقات کے لئے نئی اسکیم سے بھی مسلمانوں کو محروم کردیا گیا۔ حکومت نے جن پیشہ وراور کاریگر کو مسلم طبقات کو بی سی (ای)زمرہ میں شامل کیا ہے ان میں قریش برادی،مسلم عطر فروش،مسلم حجام،مسلم سپیرے،مسلم دھوبی کے علاوہ فقیر درویش بھی شامل ہیں جنہیں ان کے پیشہ اور کاریگری کے پیش نظر بی سی زمرہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ بی سی (ای ) زمرہ میں مسلم طبقات کو شامل کرنے کے باوجود جی اوایم ایس کے ذریعہ جس اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے اس میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کرمسلمانوں کو اسکیمات سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مسلم طبقہ کی بعض تنظیموں سے حکومت کے ذمہ داروں کی اس سے واقف کرانے اور نمائندگی کے باوجود یہ جواب دیا جارہا ہے کہ یہ حکومت کی پالیسی کا فیصلہ ہےاس سلسلہ میں حکومت کچھ کرنے سے قاصر رہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read