اگرکوئی ایسی بھارتی اختراع ہے، جس نے حالیہ برسوں میں عالمی سرخیوں میں جگہ بنائی ہے تو وہ بلاشبہ یوپی آئی (یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس) ادائیگی کا نظام ہے۔ آج بھارت میں کی جانے والی تمام ادائیگیوں میں سے 40 فیصد سے زیادہ ڈیجیٹل ہیں، جن میں یو پی آئی کا بڑا حصہ ہے، جس کا استعمال 30 کروڑ سے زیادہ افراد اور 5 کروڑ سے زیادہ تاجرکرتے ہیں۔ یو پی آئی کا استعمال اسٹریٹ وینڈروں سے لے کر بڑے شاپنگ مالوں تک ہرسطح پرکیا جاتا ہے۔ 2022 کے اعداد وشمارکے مطابق، آج دنیا کے تمام ممالک میں، بھارت سب سے زیادہ ڈیجیٹل لین دین کرنے والا ملک ہے، جس کی حصہ داری تقریباً 46 فیصد ہے۔ بھارت کے بعد برازیل، چین، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔ سال 2016 میں صرف 10 لاکھ لین دین کے بعد سے یو پی آئی نے ایک بلین لین دین کا سنگ میل عبور کیا ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی جو یو پی آئی نے پیدا کی ہے، وہ بھارتیوں کے لین دین کے طریقے میں ہے۔ گلوبل ڈیٹا کی تحقیق کے مطابق، نقد لین دین 2017 کے کل حجم کے 90 فیصد سے گھٹ کر 60 فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے۔ سال 2016 میں، 500 اور1000 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کے بعد چھ ماہ کے اندر ہی یو پی آئی پر کل لین دین کا حجم 2.9 ملین سے بڑھ کر 72 ملین ہو گیا۔ سال 2017 کے آخر تک یو پی آئی لین دین میں پچھلے سال کے مقابلے میں 900 فیصد اضافہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا ہے۔
یو پی آئی بے حد صارف دوست ہے۔ یہ صارفین کو صرف ورچوئل پیمنٹ ایڈریس (وی پی اے) کا استعمال کرکے ادائیگی کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس سے بینک کی حساس تفصیلات ساجھا کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ عمل اتنا آسان ہے گویا اسمارٹ فون پر ٹیکسٹ میسج بھیجنا۔ اس کا نتیجہ سہولت سے کہیں زیادہ ہے، جو مالی شمولیت، شفافیت اور غیر رسمی معیشت کی تخفیف میں مدد کرتا ہے۔
یو پی آئی کی ترقی نے نہ صرف ادائیگیوں کے لیے نقد رقم کو نمایاں طریقے سے منتقل کیا ہے بلکہ دیگر ڈیجیٹل ادائیگی کے طریقوں کو جگہ بھی لے لی ہے۔ مثال کے طور پر، تاجرانہ ادائیگیوں کے لیے ڈیبٹ کارڈ کا استعمال سال بہ سال کم ہوتا جا رہا ہے، اور یو پی آئی نے یہ بھی بدل دیا ہے کہ آج پری پیڈ والیٹ تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔ جوں جوں یو پی آئی ترقی اور جدت طرازی کی منازل جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے بھارت کے ڈیجیٹل مستقبل کی تشکیل میں اور بھی اہم کردار ادا کرنے کا امکان ہے۔
تاہم، ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام کی کام یابی صرف ڈیجیٹل ادائیگی کے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی میں ہی میں مضمر نہیں ہے، بلکہ ان رویوں میں بھی ہے جس نے لوگوں کو نقد رقم سے ڈیجیٹل میں تبدیل ہونے کی ترغیب دی۔ کسی بھی رویے کی تبدیلی کی طرح، اسے بصیرت افروز اختراعات کے ذریعے نظام کے اعتماد اور رسائی پر مبنی ہونا چاہیے جو اس کے بنیادی گروپ کے لیے اس کی مطابقت کو یقینی بناتا ہے۔ ان میں ادائیگی ایپس کے ذریعے فراہم کردہ چھوٹے وائس باکس جیسی چھوٹی اور دلچسپ اختراعات شامل ہیں، جہاں سِری جیسی آواز یہ اعلان کرتی ہے کہ کیو آر کوڈ کے ذریعے ہر ادائیگی کے ساتھ فوری طور پر کتنی رقم موصول ہوئی ہے۔ اس سے چھوٹے تاجروں اور اسٹریٹ وینڈروں کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنے میں مدد ملی ہے، جو طویل عرصے سے نقد لین دین کے عادی رہے ہیں۔
ایک اور اہم ڈیزائن عنصرکسٹمرکو یو پی آئی کے لیے سروس فراہم کنندہ کا انتخاب پیش کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ صارف کا اکاؤنٹ کس بینک میں ہے۔ انتخاب کی طاقت کا مطلب یہ ہے کہ صارفین ادائیگیوں کے لیے یو پی آئی تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنی پسندیدہ ادائیگی ایپس کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
یو پی آئی کے ساتھ روپے کریڈٹ کارڈوں کا انضمام ڈیجیٹل ادائیگی کے منظر نامے میں ایک انقلابی قدم کی نشان دہی کرتا ہے، جس میں صارفین کے لیے کریڈٹ کارڈ اور یو پی آئی دونوں کے فوائد شامل ہیں۔ یو پی آئی لین دین کے لیے کریڈٹ کارڈوں کے ذریعے پیش کردہ قلیل مدتی کریڈٹ سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، کارڈ ہولڈر اب اپنے بچت کھاتوں سے نکالنے کے بجائے اپنی کریڈٹ لائنوں کا استعمال کرتے ہوئے ادائیگی شروع کرسکتے ہیں۔
بھارت کا مضبوط ڈیجیٹل ادائیگی ایکو سسٹم دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا رہا ہے۔ یو پی آئی کی مقامی کام یابی کے بعد، نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا (این پی سی آئی) نے 2020 میں این آئی پی ایل (این پی سی آئی انٹرنیشنل پیمنٹس لمیٹڈ) کے نام سے ایک شاخ قائم کی تاکہ ادائیگی کے نظام کو ملک سے باہر لے جایا جاسکے۔ اس کے بعد سے این آئی پی ایل اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے 30 سے زیادہ ممالک میں مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں تاکہ بھارت کی سرحدوں سے باہر یو پی آئی پر مبنی لین دین کو بڑھایا جاسکے۔ حالیہ دنوں میں فرانس، متحدہ عرب امارات اور سری لنکا یو پی آئی کے قافلے میں شامل ہوئے ہیں۔ یو پی آئی کا فرانس میں داخلہ اہم ہے، جس سے اسے پہلی بار یورپ میں قدم جمانے میں مدد ملی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے برکس گروپ میں یو پی آئی کی توسیع پر زور دیا ہے، جس میں اب چھ نئے رکن ممالک شامل ہیں۔
2016 میں معمولی شروعات سے ہی یو پی آئی کی غیر معمولی تسلیم و مقبولیت اپنی نوعیت کی ایک منفرد کہانی ہے جو اس کے پیمانے اور اثر پذیری کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔