تحریر: کریتیکا شرما
بھارت ابھی سالانہ تقریباً۳ اعشاریہ ۴ملین ٹن پلاسٹک فضلہ پیدا کرتا ہے۔ اس فضلہ کا زیادہ ترحصہ ایسی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے جہاں کوڑے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے یا پھر انہیں ایسے مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے جہاں پانی جمع ہوتا ہے۔ پرتبھا بھارتی کا حیدرآباد میں قائم کردہ اسٹارٹ اپ نیچرس بایو پلاسٹک، اس کا ایک آسان متبادل پیش کرتا ہے جس میں پلاسٹک کی خوبیاں تو ہیں، لیکن ماحول کے لیے یہ چیزپلاسٹک جیسی نقصان دہ نہیں ہے۔ یہ مکئی یا کساوا کے نشاستہ جیسی قدرت سے حاصل اجزاء سے بنی ہوتی ہیں جو انہیں پلاسٹک کی جگہ استعمال کیے جانے کے لیے لچک اور مضبوطی فراہم کرتے ہیں۔ بایو پلاسٹک تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ان کی قابل استعمال رہنے کی مدت کافی طویل ہوتی ہے اور یہ ماحول دوست بھی ہوتے ہیں۔ نیچرس بایو پلاسٹک ایسی اشیاء تیار کرتا ہے جو روز مرہ کی زندگی میں سبزمتبادل کے طورپراستعمال کی جا سکتی ہیں۔
۲۰۲۳ءمیں پرتبھا نے ایک بین الاقوامی وزیٹرلیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی جو امریکی محکمہ خارجہ کا ایک اعلیٰ پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے۔ انہوں نے حیدر آباد میں واقع امریکی قونصل جنرل کی سبز معیشت میں خاتون کاروباری پیشہ وروں کے لیے منعقد ورکشاپ میں بھی شرکت کی۔
عزم مصمم کی کہانی
کاروباری پیشہ ور بننے سے پہلے پرتبھا سافٹ ویئرانجنیئر تھیں۔ وہ آگاہ کرتی ہیں’’میں اپنا ایک کاروبار شروع کرنا چاہتی تھی جس میں جدّت طرازی ہو اور جو روزگار کے مواقع فراہم کر سکے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ساڑھے تیرہ برس کام کرنے کے بعد مجھے لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملازمت چھوڑ دی جائے اوراپنے لیے کچھ کیا جائے۔‘‘
پرتبھا کہتی ہیں کہ وہ اپنے والد سے کافی متاثرتھیں جوخود بھی ایک کاروباری پیشہ ورتھے۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’میرے والد آزادانہ طور پر فیصلے کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے کاروبار کی روح تھے۔ ان کی انفرادیت اورقیادت نے مجھے تحریک دی۔‘‘
کاروبارشروع کرنے کے عزم نے پرتبھا کو مہارت پیدا کرنے کی خاطر بہت زیادہ تحقیق سے گزرنے کا حوصلہ بخشا۔ انہوں نے حیدرآباد میں سینٹر فار سیلولر اینڈ مالیکیولر بایولوجی کے سائنسدانوں کے ساتھ تحقیق اورمشاورت کے ذریعے مالیکیولربایولوجی کے بارے میں سیکھا تاکہ نیچرس بایوپلاسٹک کے بانی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔
پرتبھا نے نشاستہ کے ذرائع کے ساتھ تجربہ کیا جس میں شکر قند اورساگودانہ شامل ہیں۔ مگر انہوں نے پایا کہ انہیں زیادہ دنوں تک قابل استعمال حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں’’ابتدائی طور پر تیار کی گئی مصنوعات ۲۰ سے۳۰ دنوں کے اندر خراب ہونا شروع ہو جاتی تھیں۔ وہ بازار کے لیے مناسب نہیں تھیں۔‘‘
آخرکارپرتبھا نے زرعی تحقیق سے متعلق بھارتی کونسل(آئی سی اے آر)کے ایک جونیئر سائنسداں کے ساتھ مل کرموجودہ فارمولے کو تیار کیا۔ وہ بتاتی ہیں’’اب ہماری مصنوعات جو پولی لیکٹک ایسڈ اورپولی بوٹیلین ایڈیپیٹ کو- ٹیریفتھیلیٹ کا مرکب ہے، ۹۰ سے ۱۸۰ دنوں میں خراب ہونا شروع ہو تی ہیں۔‘‘ اس سے کھاد بھی تیار کی جا سکتی ہے۔
نیچرس بایوپلاسٹک سامان لانے لے جانے والے تھیلے ، کوڑے دان، جوتوں کے کور اورٹوپیاں تیار کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’حال ہی میں ہم نے پانی کی استعمال کے بعد پھینک دی جانے والی بوتلوں کا ماحول دوست ابتدائی نمونہ تیار کیا ہے۔ ‘‘ نیچرس بایو پلاسٹک کوچی کے مرکزی آلودگی کنڑول بورڈاور سی آئی پی ای ٹی سے توثیق یافتہ بھی ہے۔
آئی وی ایل پی کا تجربہ
پرتبھا اپنے آئی وی ایل پی تجربے کو ’’زندگی میں صرف ایک بار ملنے والا موقع‘‘قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے دیکھا ہے کہ بھارت میں کاروباری پیشہ وری اور چھوٹے کاروبار کس طرح کام کرتے ہیں۔ آئی وی ایل پی کے ذریعے مجھے یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ امریکہ میں بایوپلاسٹک کے شعبے میں کاروباری پیشہ ور اور چھوٹے کاروبار کس طرح اپنے کام کو انجام دے رہے تھے۔‘‘پرتبھا نے پائیداری کے شعبے سے تعلق رکھنے والی متعدد خاتون کاروباری پیشہ وروں سے بھی ملاقات کی۔ تاہم جس چیز نے انہیں متاثر کیا وہ چھوٹے کاروباروں اور کاروباری پیشہ وروں کو اپنا کام شروع کرنے کے لیے ملنے والی مدد تھی جس سے انہیں شراکت داری اور نیٹ ورکنگ پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا۔
پرتبھا آگے کیا کرنا چاہتی ہیں، اس سے متعلق ان کا نظریہ واضح ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں مدد، علم اور مالی امداد کی خواہاں خواتین کاروباری پیشہ وروں کی رہنمائی کرنا چاہتی ہوں۔ ہر کاروباری ناظم کو ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں یہ بتائے کہ پالیسی، توثیق اور مالی امداد کو کس طرح تلاش کرنا ہے۔ میں رہنمائی کی خواہاں خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہوں ،خاص طور پر اس وقت جب کاروبار شروع کرنے کے لیے وہ منصوبہ بندی کر رہی ہوں۔‘‘
کسی کی مدد کرنا
ایک خاتون کاروباری پیشہ ور کے طور پر پرتبھا دیگر خواتین کاروباریوں کی مدد کے لیے انہیں اپنی غلطیوں سے واقف کرانا چاہتی ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ اپنے موضوع پر ضروری معلومات حاصل کرنے کے لیے وہ اچھی طرح سے تحقیق کریں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمیں اس پروڈکٹ کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں مکمل طور پر جاننے کی ضرورت ہے جسے ہم بازار میں لانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔‘‘
وہ کہتی ہیں ’’کاروبارشروع کرنے سے پہلے جب ذہن میں اس کا خیال آئے، آپ اپنی مخصوص مصنوعات کے تعلق سے بہتر سمجھ رکھیں اور اس بات کا اندازہ لگائیں کہ مستقبل یعنی پانچ سے دس برس میں یہ آپ کے لیے کتنا قابل عمل ہوگا۔’’پرتبھا کاروباریوں کو یہ بھی مشورہ دیتی ہیں کہ اگر ابتدائی مصنوعات بازار میں متعارف نہیں کروا پاتے ہیں تو اس کا متبادل ذہن میں رکھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہرخاتون میں قائدانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ بعض توضیحی معلومات کے ساتھ یہ قائدانہ صلاحیت کاروباری پیشہ وروں کو زیادہ آسانی سے کامیابی حاصل کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔