Bharat Express

Bajrang Dal Ban Row: بجرنگ دل کو سیمی کی طرح خطرناک مانتےتھے دگوجے سنگھ، پابندی لگانے کی سفارش کی تھی، اب ’ہردے پریورتن‘ کے پیچھے کمل ناتھ تو نہیں…

سیاست کی ڈگرہی ایسی ہے، جہاں وقت اورماحول دیکھ کر فیصلے لئے جاتے ہیں اور بیان تبدیل کئے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات 2023 سے قبل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

مدھیہ پردیش کی راج گڑھ سیٹ پر دگ وجے سنگھ نے ووٹوں کی گنتی رکوائی۔ (فائل فوٹو)

سیاست کی ڈگرہی ایسی ہے، جہاں وقت اور ماحول دیکھ کرفیصلے لئے جاتے ہیں اور بیان تبدیل کئے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات 2023 سے قبل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک وقت میں ہندو وادی تنظیم بجرنگ دل کا موازنہ مسلم ممنوعہ تنظیم سیمی سے کرنے والے دگوجے سنگھ کا اب ’ہردے پریورتن‘ ہوچکا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اقتدار میں واپسی کے بعد بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی قیاس آرائیوں کو انہوں نے خارج کردیا ہے۔ بدھ کو بھوپال میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دگوجے سنگھ نے کہا کہ اگرکانگریس مدھیہ پردیش میں حکومت بناتی ہے تو بجرنگ دل پر پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ اس تنظیم میں بھی کچھ اچھے لوگ ہیں۔

دگوجے سنگھ کے اس بیان سے کانگریس کے ساتھ ساتھ خود بجرنگ دل کے لوگ بھی حیران ہیں۔ کیونکہ یہی کانگریس پارٹی جب کرناٹک میں الیکشن لڑرہی تھی تب اس نے مسلم تنظیم پاپولرفرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کا موازنہ بجرنگ دل سے کیا تھا اور اقتدار میں آنے پراس پر پابندی لگانے کی بات بھی کہی تھی۔ تاہم مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور ان کے لیڈران کے تیور تو کرناٹک والے ہی ہیں، لیکن زبان بدل گئی ہے۔

بجرنگ دل کے سخت مخالف رہے ہیں دگوجے سنگھ

دگ وجے سنگھ بطورکانگریس لیڈر اورمدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ ہندوتوا تنظیموں کے سخت مخالف رہے ہیں۔ وشو ہندو پریشد سے لے کر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) تک، انہوں نے ان طریقوں کی کھل کرمخالفت کی ہے۔ جب وہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے، تب بھی انہوں نے بجرنگ دل کا موازنہ اسلامی تنظیم سمی (اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا) سے کیا تھا اوراس پر پابندی لگانے کی بھرپور کوشش بھی کی تھی۔ پھر مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے صرف سیمی پرپابندی لگا دی تھی۔

اکتوبر2008 میں، جب منموہن سنگھ کی سربراہی میں یو پی اے حکومت تھی، تب بھی بجرنگ دل پرپابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مطالبے کی حمایت کرنے والوں میں دگ وجے سنگھ پہلی لائن میں کھڑے تھے۔ اس دوران اس حوالے سے کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ تاہم پھر بھی معاملہ جوں کا توں رہ گیا۔

 ’ہندوتوا کی لیبروٹری‘ پر قبضہ کرنا چاہتی ہےکانگریس

مدھیہ پردیش کو کبھی ہندوتوا کی لیبروٹری کہا جاتا تھا۔ دگ وجے سنگھ اس تجربہ گاہ کے سب سے بڑے مخالفین میں سے ایک تھے، لیکن وہ اور پارٹی کے سبھی لیڈر یہ سمجھ چکے ہیں کہ مدھیہ پردیش کی پچ کرناٹک یا دیگر ریاستوں سے مختلف ہے اور یہاں صرف “ہندوتوا” کا کھیل ہی کارگر ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدھیہ پردیش کانگریس اپنی اعلیٰ قیادت سے دورہٹ کرہندوتوا کی تجربہ گاہ میں علاقائی جذبات کا کیمیکل ملا رہی ہے۔ کمل ناتھ نے سب سے پہلے اس حقیقت کو اپنے اندر اپنایا۔ مانا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے کانگریس کی طویل مدتی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی کوئی حکمت عملی اپنی شکل اختیار کرلے اوردگ وجے سنگھ اس سے دوررہیں۔ ایسے میں اگر دگ وجے سنگھ کی سوچ بھی کمل ناتھ کی طرز پر ہے تو ظاہر ہے کہ اسے پارٹی کی حکمت عملی کی سوچ کہا جا سکتا ہے۔

دگ وجے سنگھ نے ہندوتوا اور کمل ناتھ پر بات کی
سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کے باگیشور دھام کے دھیریندر شاستری کے سامنے جھک جانے کے بعد بھی بحث کا بازار گرم ہے۔ کانگریس کے اندر سے بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، لیکن دگ وجے سنگھ نے یہاں بھی سب کو حیران کر دیا۔ انہوں نے کمل ناتھ کے اس اقدام کی حمایت کی اور ہندو راشٹر کے بیان کا دفاع کیا۔ دگ وجے سنگھ نے کہا کہ کمل ناتھ کے بیان کو غلط اندازمیں لیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کمل ناتھ نے کہا تھا کہ ہندوستان میں 80 فیصد ہندو ہیں، اس لیے یہ ایک ہندو قوم ہے۔ اس دوران دگ وجے سنگھ نے یہ ضرور کہا کہ ہندوؤں کی تعداد گننا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ میرے اور کمل ناتھ کے درمیان تنازعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم چاردہائیوں سے مل کر کام کر رہے ہیں اور مخالفین میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔

ایس ٹی اور قبائلی ووٹوں پر نظر
جہاں کمل ناتھ نرم ہندوتوا کے ذریعے ایک طبقہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دگ وجے سنگھ اپنی پد یاترا کے ذریعے خاص طور پر دلت اور قبائلی لوگوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، دگ وجے سنگھ 35 ایس سی سیٹوں کا دورہ کریں گے۔ اس کی شروعات انہوں نے بیراسیا اسمبلی سے کی۔ یہاں اس نے 11 کلومیٹر کا سفر ننگے پاؤں پیدل طے کیا۔ غور طلب ہے کہ دگّی راجہ پہلے ہی 66 سیٹوں کا دورہ کر چکے ہیں جہاں 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو شکست ہوئی تھی۔

مجموعی طور پر، مدھیہ پردیش کے انتخابی موسم میں، کانگریس پہلے سے زیادہ تیاراورحکمت عملی کے لحاظ سے کوئی بھی داوں کھیلنے کے لئے آزاد دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف جہاں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت مدھیہ پردیش میں انتخابی باگ ڈور سنبھال رہی ہے وہیں دوسری طرف کانگریس ہائی کمان نے اپنی تمام حکمت عملی کمل ناتھ اوردگ وجے کے ذمہ سونپ دی ہے۔

 بھارت ایکسپریس۔ن